رنج کا خوگر ہوا ، انساں تو مٹ جاتا ہے غم
مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر ، کہ آساں ہو گئیں
غم الممیری قسمت میں غم ، گر اتنے تھے
دل بھی یا رب ، کئی دئے ہوتے
غم الممحبت میں نہیں ہے فرق ، جینے اور مرنے کا
اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں ، جس کافر پہ دم نکلے
پیار-محبت-الفتمجھ تک کب ان کی بزم میں ، آتا تھا دورِ جام
ساقی نے کچھ ملا نہ ، دیا ہو شراب میں
بزم-محفل-انجمناجالا تو ہوا کچھ دیر کو ، صحنِ گلستاں میں
بلا سے پھونک ڈالا ، بجلیوں نے آشیاں میرا
اندھیرے-اجالے-روشنییہ فتنہ آدمی کا ، خانہ ویرانی کو کیا کم ہے
ہوئے تم دوست جس کے ، دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
دوست دشمنمسجد کے زیرِ سایہ اک گھر بنا لیا ہے
اک بندۂ کمینہ ہمسایۂ خدا ہے
دیر و حرم (مندر-مسجد)جی کانپتا ہے خلد میں ، رکھتے ہوئے قدم
ڈر ہے کہ اس زمیں پہ بھی ، آسماں نہ ہو
جنت و جہنماگ رہا ہے در و دیوار پہ سبزہ غالبؔ
ہم بیاباں میں ہیں ، اور گھر میں بہار آئی ہے
در-دیوار-آستاںناکردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد
یا رب اگر ان کردہ ، گناہوں کی سزا ہے
گناہ-گنہ گار-بےگناہکتنے شیریں ہیں ، تیرے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا
لب-رخسار-عارض-بوسہغضب کیا ترے وعدہ پہ ، اعتبار کیا
تمام رات قیامت کا ، انتظار کیا
وعدہ-تغافلترے وعدہ پہ جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے ، اگر اعتبار ہوتا
وعدہ-تغافلنیند اس کی ہے ، دماغ اس کا ہے ، راتیں اس کی ہیں
تیری زلفیں ، جس کے شانے پر پریشاں ہو گئیں
نیند-خوابموت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
موت-ازل-قضاپہلے آتی تھی حالِ دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر ، نہیں آتی
دلاگ رہا ہے در و دیوار پہ سبزہ غالبؔ
ہم بیاباں میں ہیں ، اور گھر میں بہار آئی ہے
صحرا-ویرانہ-بیاباںکوئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کے ، گھر یاد آیا
صحرا-ویرانہ-بیاباںعشرتِ قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا
دعا-دوا-شفاہم کو ان سے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
وفا-جفابےخودی بےسبب نہیں غالبؔ
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
خودی-بےخودیشب کو کسی کے خواب میں آیا نہ ہو کہیں
دیکھتے ہیں آج اس ، بتِ نازک بدن ،کے پاؤں
ناز-انداز-نزاکت-ادایہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے ، یہی انتظار ہوتا
انتظار-منتظرکعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالبؔ
شرم تم کو مگر نہیں آتی
کعبہ-بت-بت کدہ-بت خانہجب توقع ہی اٹھ گئی غالبؔ
کیا کسی سے گلہ کرے کوئی
گلہ-شکوہمنحصر ہو جس کی مرنے پر امید
ناامیدی اس کی دیکھا چاہئے
امید-توقع-آسکوئی صورت نظر نہیں آتی
کوئی امید بر نہیں آتی
امید-توقع-آسجب توقع ہی اٹھ گئی غالبؔ
کیا کسی سے گلہ کرے کوئی
امید-توقع-آسکہتے ہیں جیتے ہیں امید پہ لوگ
ہم کو جینے کی بھی امید نہیں
امید-توقع-آسہم کو ان سے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
امید-توقع-آسواعظِ تنگ نظر نے مجھے کافر جانا
اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلمان ہوں میں
کفر-ایمان-کافرذکر اس پری وش کا ، اور پھر بیاں اپنا
بن گیا رقیب آخر ، تھا جو رازداں اپنا
عدو-رقیب-دشمنمیں اور بزمِ مے سے ، یوں تشنہ کام آؤں
گر میں نے کی تھی توبہ ، ساقی کو کیا ہوا تھا
توبہیہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غمگسار ہوتا
واعظ-زاہد-ناصح-شیخخواہش کا نام عشق ، نمائش کا نام حسن
اہلِ ہوس نے دونوں کی مٹی خراب کی
میرے پسندیدہ اشعارہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہوں
ورنہ کیا بات کر نہیں آتی
میرے پسندیدہ اشعاروہ آئیں گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے
کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں
میرے پسندیدہ اشعارنکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے تھے لیکن
بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچہ سے ہم نکلے
میرے پسندیدہ اشعارجاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے
کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور
میرے پسندیدہ اشعارزاہد شراب پینے دے مسجد میں بیٹھ کر
یا وہ جگہ بتا دے جہاں پر خدا نہ ہو
میرے پسندیدہ اشعارکہاں مےخانہ کا دروازہ غالبؔ اور کہاں واعظ
پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے
میرے پسندیدہ اشعارغمِ ہستی کا اسدؔ کس سے ہو جزمرگ علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک
میرے پسندیدہ اشعارعمر بھر غالبؔ بھول یہی کرتا رہا
دھول چہرہ پہ تھی اور وہ آئینہ صاف کرتا رہا
میرے پسندیدہ اشعارکچھ اس طرح سے زندگی کو میں نے آساں کر لیا
کسی سے معافی مانگ لی ، کسی کو معاف کر دیا
میرے پسندیدہ اشعاررنگینیٔ حیات بڑھانے کے واسطے
پڑتی ہے حادثوں کی ضرورت کبھی کبھی
زندگی-زیست-حیاتنہ تھا کچھ تو خدا تھا ، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے ، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
خدا -ناخداجو تمنا بر نہ آئے عمر بھر
عمر بھر اس کی تمنا کیجئے
تمنا-آرزو-خواہشجب میکدہ چھٹا تو پھر اب کیا جگہ کی قید
مسجد ہو مدرسہ ہو یا کوئی خانقاہ ہو
مےکدہ-مےخانہ