مت سہل ہمیں جانو ، پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے ، انسان نکلتے ہیں
انسان-انسانیت-بشروہ آئے بزم میں ، اتنا تو میرؔ نے دیکھا
پھر اس کے بعد ، چراغوں میں روشنی نہ رہی
بزم-محفل-انجمنچاند چمکا کیا ، شمع جلتی رہی
ہم ترستے رہے ، روشنی کے لئے
اندھیرے-اجالے-روشنیالٰہی! شبِ غم میں ، اتنا تو ہو
کوئی جھوٹ کہہ دے ، سحر ہو گئی
شام و سحردوست ہوتا وہ ، تو کیا ہوتا
دشمنی پر تو ، پیار آتا ہے
دوست دشمننازکی اس کے لب کی کیا کہئے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
لب-رخسار-عارض-بوسہسنگ کو موم کی مانند پگھلتے دیکھا
یا ترے جسم کو انگڑائی میں ڈھلتے دیکھا
انگڑائیدل کے دل میں ہی رہ گئے ارماں
کم رہا ، موسمِ شباب بہت
شباب و پیریاس کے ایفائے عہد تک ، نہ جئے
عمر نے ہم سے ، بےوفائی کی
وعدہ-تغافلموت اک ماندگی کا وقفہ ہے
یعنی آگے چلیں گے دم لے کر
موت-ازل-قضادیدنی ہے شکستگی دل کی
کیا عمارت ، غموں نے ڈھائی ہے
دلشام سے ہی بجھا سا رہتا ہے
دل ہوا ہے چراغ مفلس کا
دلدل کے تئیں ، آتشِ ہجر سے بچایا نہ گیا
گھر جلا سامنے اور ہم سے بجھایا نہ گیا
دلدل کی ویرانی کا کیا مذکور ہے
یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گیا
دلباقی مرے حصہ میں بس دو ہی تو باتیں ہیں
جینے کی دعا دینا ، مرنے کی دعا کرنا
دعا-دوا-شفادل ڈھونڈھتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن
بیٹھے رہیں تصورِ جاناں کئے ہوئے
تصور-خیالوصل میں رنگ اڑ گیا میرا
کیا جدائی کو منہ دکھاؤں گا
ہجر-و-وصالبےخودی لے گئی کہاں ہم کو
دیر سے انتظار ہے اپنا
خودی-بےخودیکھلنا کم کم کلی نے سیکھا ہے
تیری آنکھوں کی نیم بازی سے
آنکھمیرؔ ان نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے
آنکھیہ تو مہلت ہے ، جسے کہیں ہیں عمر
دیکھو تو انتظار سا ہے کچھ
انتظار-منتظربےخودی لے گئی کہاں ہم کو
دیر سے انتظار ہے اپنا
انتظار-منتظرابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا
حسن و عشقتجھ کو مسجد ہے ، مجھ کو میخانہ
واعظہ! اپنی اپنی قسمت ہے
واعظ-زاہد-ناصح-شیخفقیرانہ آئے صدا کر چلے
میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے
میرے پسندیدہ اشعاردنیا سے جا رہا ہوں چھپا کر کفن سے منہ
افسوس بعد مرنے کے ، آئی حیا مجھے
میرے پسندیدہ اشعارتجھ کو مسجد ہے مجھ کو مےخانہ
واعظا! اپنی اپنی قسمت ہے
میرے پسندیدہ اشعارتجھی پر کچھ اے بت! ، نہیں منحصر
جسے ہم نے پوجا ، خدا کر دیا
خدا -ناخداہم خدا کے کبھی قائل ہی نے تھے
اس کو دیکھا تو خدا یاد آیا
خدا -ناخداشام ہی سے بجھا سا رہتا
ہےدل ہوا ہے چراغ مفلس کا
غریب-مفلس-افلاسمیرؔ ان نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے
آنکھ-چشمکھلنا کم کم کلی نے سیکھا ہے
تیری آنکھوں کی نیم خوابی سے
آنکھ-چشم