یہ تو ممکن ہے ، کسی روز خدا بن جائے
غیر ممکن ہے ، مگر شیخ کا انساں ہونا
انسان-انسانیت-بشرزندگی کے غموں کو ، اپنا کر
ہم نے دراصل ، تجھ کو اپنایا
غم المعقل سے صرف ، ذہن روشن تھا
عشق نے دل میں ، روشنی کی ہے
پیار-محبت-الفتطوفاں سے ، اپنی کشتی بچانا تو سہل ہے
طوفان کے وقار کا ، دل توٹ جائے گا
سفینہ و ساحل-کشتی و طوفاںآسودگی نہیں مری کشتی کو سازگار
ٹکرا کے ٹوٹ جائے گی ساھل اگر ملا
سفینہ و ساحل-کشتی و طوفاںکوئی دیکھے تو ، بزمِ زندگی میں
اجالوں نے اندھیرا ، کر دیا ہے
اندھیرے-اجالے-روشنیدشمنوں نے تو دشمنی کی ہے
دوستوں نے بھی کیا کمی کی ہے
دوست دشمندشمنوں کا تو ذکر ہی کیا ہے
دوستوں سے بھی ڈر گئے ہیں ہم
دوست دشمنہمیں جب بھی دھوکا دیا دوستوں نے
ہمیں اپنے دشمن بہت یاد آئے
دوست دشمندل لاکھ سخت جاں ہو مگر ٹوٹ جائے گا
یارانِ پرخلوص کی امداد چاہئے
دوست دشمندوستوں نے دئے ہیں زخم کہاں
دوستی کا صلہ دیا ہے مجھے
دوست دشمنکتنا بڑا ثبوت مری سادگی کا ہے
احباب سے خلوص کا خواہاں رہا ہوں میں
دوست دشمندوستی اور اس زمانہ میں
ذکر کرتے ہو کس زمانے کا
دوست دشمنغیروں کی دشمنی تو ، بڑی جاں نواز تھی
اپنوں کے التفات سے ، مارے گئے ہیں ہم
دوست دشمنجب بھی آتی ہے ، ہنسی اپنی تباہی پہ مجھے
جانے کیا سوچ کے ، اغیار بھی رو دیتے ہیں
دوست دشمنغنچوں کے مسکرانے پہ ، کہتے ہیں ہنس کے پھول
اپنا کرو خیال ، ہماری تو کٹ گئی
پھول اور کانٹےبڑی ظالم نہایت بےوفا ہے
یہ دنیا پھر بھی کتنی خوشنما ہے
دنیا-کائنات-جہاںگناہ سے ہمیں رغبت نہ تھی ، مگر یا رب
تری نگاہِ کرم کو بھی ، منہ دکھانا تھا
گناہ-گنہ گار-بےگناہاس کے سوا کہ پی کے میں ، اکثر بہک گیا
کچھ اور بھی ہے کیا ، مری فردِ گناہ میں
گناہ-گنہ گار-بےگناہشیخ! تیرے خدا کی رحمت کو
ہر گنہ گار سے محبت ہے
گناہ-گنہ گار-بےگناہمفلسوں کا حال کیا ہے پوچھئے
حسرتوں نے عمر بھر پیچھا کیا ہے
حسرت و ارماںاے شمع! تو جلی ہے ، جو خاموش بزم میں
چپ چاپ تیری آگ میں ، پروانہ بھی جلا
شمع و پروانہزندگی سے تو خیر شکوہ تھا
مدتوں موت نے بھی ترسایا
موت-ازل-قضادل لاکھ سخت جاں ہو مگر ٹوٹ جائے گا
یارانِ پرخلوص کی امداد چاہئے
دلیہ سوچ کر بھی ہنس نہ سکے ہم شکستہ دل
یارانِ غمگسار کا دل ٹوٹ جائے گا
دلفیصلہ ہوتا ہے نیکی و بدی کا ہر دم
دل کو اس جسم میں چھوٹی سی عدالت سمجھو
دلمرے پہلو میں دل تو ہے یقیناً
ازل سے ہی مگر ، ٹوٹا ہوا ہے
دلیاد آتا ہے مجھے جب بھی تبسم تیرا
دیر تک جلتے چراغوں کا سماں رہتا ہے
یاداللہ رے بےخودی کہ ترے پاس بیٹھ کر
تیرا ہی انتظار کیا ہے کبھی کبھی
خودی-بےخودیانساں کا خون پینا تو اک رسم عام ہے
انگور کی شراب کا پینا حرام ہے
مے-شراب-میناوہ آنکھ ہے حجاب کے عالم میں اس طرح
اک بادہ کش ہو جیسے کسی خانقاہ میں
میرے پسندیدہ اشعارجب بہاروں نے نہ پایا کوئی بھی اپنا مقام
تیرے ہونٹوں کے تبسم سے لپٹ کر سو گئیں
میرے پسندیدہ اشعارجس کو دیر و حرم میں کھویا تھا
میکدہ میں وہ زندگی پائی
میرے پسندیدہ اشعارزندگی سے تو ، خیر شکوہ تھا
مدتوں موت نے بھی ترسایا
زندگی-زیست-حیاتجیسے مری نگاہ نے دیکھا نہ ہو تجھے
محسوس یہ ہوا تجھے ، ہر بار دیکھ کر
تمنا-آرزو-خواہشڈرتا ہوں کہیں آپ کی ، بےلوث نوازش
خودداریٔ احساس کو ، مجروح نہ کر دے
عبادت-بندگی