راشد حامدی

راشد حامدی

تخلص راشد حامدی

    پیدائش :
    پیدائش کی جگہ :

راشد حامدی کی غزلیں

راشد حامدی کا تعارف

راشد حامدی کے اشعار

  • چیخیں مری سن کر بھی ، کوئی پاس نہ آیا

    اس شہر میں شاید ، کوئی انسان نہیں ہے

    انسان-انسانیت-بشر
  • سبک سارانِ ساحل کیوں ہمیں آواز دیتے ہیں

    ہم اپنی کشتیاں رکھتے ہیں طوفانوں سے وابستہ

    سفینہ و ساحل-کشتی و طوفاں
  • ظلمتِ غم سے یہ کہہ دو ، کہ نہ الجھے ہم سے

    ہم بھی دشمن ہیں اندھیروں کے ، اجالوں کی طرح

    اندھیرے-اجالے-روشنی
  • خواب شرمندۂ تعبیر ، بھی ہو جاتے ہیں

    شکوۂ کاتبِ تقدیر ، بھی ہو جاتے ہیں

    تقدیر-تدبیر-مقدر-نصیب
  • اس کی آنکھوں میں نظر آتے ہیں آنسو راشدؔ

    لیجئے ٹوٹ گئے آج بھرم پتھر کے

    اشک-آنسو
  • تنہا سفر سے ساتھی بہتر

    دوست نہیں تو کوئی دشمن

    دوست دشمن
  • احباب مجھ سے کس لئے ناراض ہو گئے

    میں بات کر رہا تھا اندھیرے کے تیر کی

    دوست دشمن
  • یہ تو میرا ظرف تھا ، میں ہی مقابل آ گیا

    کوئی تو مجروح ہوتا دوستوں کے تیر سے

    دوست دشمن
  • لگتا ہے کہ صیاد نے ، فطرت ہی بدل دی

    ہر پھول مجھے خار کی ، صورت میں ملا ہے

    پھول اور کانٹے
  • گلوں سے خون ٹپکتا ہے ، خار ہیں شاداب

    بنامِ فصلِ بہاراں ، خزاں بہار میں ہے

    پھول اور کانٹے
  • بھائی! اٹھا لے صحن ، میں دیوار تو مگر

    بنیاد میں اخوت و ایثار ڈال دے

    در-دیوار-آستاں
  • تاعمر رفاقت کی قسم کھائی تھی جس نے

    بچھڑا ہے تو پھر مجھ کو ، قیامت میں ملا ہے

    حشر-محشر-قیامت
  • اس جسارت پر ، گنہ گاروں میں ، شامل کر دیا

    میں نے دل کی بات ، کہہ دی تھی ، تری تصویر سے

    گناہ-گنہ گار-بےگناہ
  • جل بجھا ، دیکھ کے سورج مری انگنائی میں

    آپ کی یاد کے جگنو شبِ تنہائی میں

    تنہائی-خلوت
  • اس کا ہر عضو بغاوت پہ اتر آتا ہے

    کروٹیں لیتی ہیں جب خواہشیں انگڑائی میں

    انگڑائی
  • اپنے خوابوں کے تعاقب میں کہاں تک جاؤں

    فاصلے پاؤں کی زنجیر بھی ہو جاتے ہیں

    نیند-خواب
  • آئینہ تو خود ہی گردآلود ہے

    آئینہ کے سامنے شرمائیں کیا

    آئینہ-شیشہ
  • غمِ دنیا ، غمِ عقبیٰ ، غمِ جاناں ، غمِ دوراں

    یہ زنجیریں بھی اب رہتی ہیں دیوانوں سے وابستہ

    جنون-دیوانگی
  • اس سے بچھڑ کے جی کا زیاں کم نہیں ہوا

    کچھ بڑھ گیا ہے دردِ نہاں کم نہیں ہوا

    دکھ-درد
  • دو گھڑی بیٹھا تھا راشدؔ تھک کے راہِ شوق میں

    انتقاماً اس نے صحرا میں شجر رکھا نہیں

    صحرا-ویرانہ-بیاباں
  • بھول جانے کی اسے میں نے دعا مانگی ہے

    دل یہ کہتا ہے خدایا! اسے منفی کر دے

    دعا-دوا-شفا
  • بھول کر بھی نہ کبھی ہم نے اسے یاد کیا

    اس طرح بھی دلِ ناشاد ، تجھے شاد کیا

    یاد
  • ٹپک رہا ہے مری آنکھ سے لہو بن کر

    عجیب کرب میری چشمِ انتظار میں ہے

    آنکھ
  • تمام شہر پہ دشمن کا ہو گیا قبضہ

    فقیہِ شہر بشارت کے انتظار میں ہے

    انتظار-منتظر
  • حالات تھے جو بھیڑ میں پھرتے رہے لئے

    ورنہ ہر ایک آدمی خلوت پسند تھا

    حادثہ-حوادث-حادثات-حالات
  • دشمن تو کہہ رہا ہے کہ ، ہتھیار ڈال دے

    احباب کہہ رہے ہیں کہ ، دستار ڈال دے

    عدو-رقیب-دشمن
  • کوئی سایہ نہ شجر یاد آیا

    تھک گئے پاؤں تو گھر یاد آیا

    میرے پسندیدہ اشعار
  • منزلوں نے جب پکارا ، بےمہابا چل پڑے

    ہم نے راہِ شوق میں زادِ سفر رکھا نہیں

    منزل-کارواں-قافلہ
  • اب وہ سودائے جنوں ہے ، نہ تمنا دل میں

    ایک عالم ، دلِ برباد نے برباد کیا

    تمنا-آرزو-خواہش
  • میرے بچوں کو بھی احساس ہے غربت کا مری

    اب کھلونوں کے لئے کوئی مچلتا بھی نہیں

    غریب-مفلس-افلاس
  • اس کے غم میں پھوٹ بہی ہے

    آنکھیں ہیں یا گنگ و جمن

    آنکھ-چشم