چیخیں مری سن کر بھی ، کوئی پاس نہ آیا
اس شہر میں شاید ، کوئی انسان نہیں ہے
انسان-انسانیت-بشرسبک سارانِ ساحل کیوں ہمیں آواز دیتے ہیں
ہم اپنی کشتیاں رکھتے ہیں طوفانوں سے وابستہ
سفینہ و ساحل-کشتی و طوفاںظلمتِ غم سے یہ کہہ دو ، کہ نہ الجھے ہم سے
ہم بھی دشمن ہیں اندھیروں کے ، اجالوں کی طرح
اندھیرے-اجالے-روشنیخواب شرمندۂ تعبیر ، بھی ہو جاتے ہیں
شکوۂ کاتبِ تقدیر ، بھی ہو جاتے ہیں
تقدیر-تدبیر-مقدر-نصیباس کی آنکھوں میں نظر آتے ہیں آنسو راشدؔ
لیجئے ٹوٹ گئے آج بھرم پتھر کے
اشک-آنسوتنہا سفر سے ساتھی بہتر
دوست نہیں تو کوئی دشمن
دوست دشمناحباب مجھ سے کس لئے ناراض ہو گئے
میں بات کر رہا تھا اندھیرے کے تیر کی
دوست دشمنیہ تو میرا ظرف تھا ، میں ہی مقابل آ گیا
کوئی تو مجروح ہوتا دوستوں کے تیر سے
دوست دشمنلگتا ہے کہ صیاد نے ، فطرت ہی بدل دی
ہر پھول مجھے خار کی ، صورت میں ملا ہے
پھول اور کانٹےگلوں سے خون ٹپکتا ہے ، خار ہیں شاداب
بنامِ فصلِ بہاراں ، خزاں بہار میں ہے
پھول اور کانٹےبھائی! اٹھا لے صحن ، میں دیوار تو مگر
بنیاد میں اخوت و ایثار ڈال دے
در-دیوار-آستاںتاعمر رفاقت کی قسم کھائی تھی جس نے
بچھڑا ہے تو پھر مجھ کو ، قیامت میں ملا ہے
حشر-محشر-قیامتاس جسارت پر ، گنہ گاروں میں ، شامل کر دیا
میں نے دل کی بات ، کہہ دی تھی ، تری تصویر سے
گناہ-گنہ گار-بےگناہجل بجھا ، دیکھ کے سورج مری انگنائی میں
آپ کی یاد کے جگنو شبِ تنہائی میں
تنہائی-خلوتاس کا ہر عضو بغاوت پہ اتر آتا ہے
کروٹیں لیتی ہیں جب خواہشیں انگڑائی میں
انگڑائیاپنے خوابوں کے تعاقب میں کہاں تک جاؤں
فاصلے پاؤں کی زنجیر بھی ہو جاتے ہیں
نیند-خوابآئینہ تو خود ہی گردآلود ہے
آئینہ کے سامنے شرمائیں کیا
آئینہ-شیشہغمِ دنیا ، غمِ عقبیٰ ، غمِ جاناں ، غمِ دوراں
یہ زنجیریں بھی اب رہتی ہیں دیوانوں سے وابستہ
جنون-دیوانگیاس سے بچھڑ کے جی کا زیاں کم نہیں ہوا
کچھ بڑھ گیا ہے دردِ نہاں کم نہیں ہوا
دکھ-درددو گھڑی بیٹھا تھا راشدؔ تھک کے راہِ شوق میں
انتقاماً اس نے صحرا میں شجر رکھا نہیں
صحرا-ویرانہ-بیاباںبھول جانے کی اسے میں نے دعا مانگی ہے
دل یہ کہتا ہے خدایا! اسے منفی کر دے
دعا-دوا-شفابھول کر بھی نہ کبھی ہم نے اسے یاد کیا
اس طرح بھی دلِ ناشاد ، تجھے شاد کیا
یادٹپک رہا ہے مری آنکھ سے لہو بن کر
عجیب کرب میری چشمِ انتظار میں ہے
آنکھتمام شہر پہ دشمن کا ہو گیا قبضہ
فقیہِ شہر بشارت کے انتظار میں ہے
انتظار-منتظرحالات تھے جو بھیڑ میں پھرتے رہے لئے
ورنہ ہر ایک آدمی خلوت پسند تھا
حادثہ-حوادث-حادثات-حالاتدشمن تو کہہ رہا ہے کہ ، ہتھیار ڈال دے
احباب کہہ رہے ہیں کہ ، دستار ڈال دے
عدو-رقیب-دشمنکوئی سایہ نہ شجر یاد آیا
تھک گئے پاؤں تو گھر یاد آیا
میرے پسندیدہ اشعارمنزلوں نے جب پکارا ، بےمہابا چل پڑے
ہم نے راہِ شوق میں زادِ سفر رکھا نہیں
منزل-کارواں-قافلہاب وہ سودائے جنوں ہے ، نہ تمنا دل میں
ایک عالم ، دلِ برباد نے برباد کیا
تمنا-آرزو-خواہشمیرے بچوں کو بھی احساس ہے غربت کا مری
اب کھلونوں کے لئے کوئی مچلتا بھی نہیں
غریب-مفلس-افلاساس کے غم میں پھوٹ بہی ہے
آنکھیں ہیں یا گنگ و جمن
آنکھ-چشم