داغِ دل سے بھی ، روشنی نہ ملی
یہ دیا بھی ، جلا کے دیکھ لیا
اندھیرے-اجالے-روشنیاشکوں سے سلگتی ہوئی ، امید کو دیکھو
پانی سے اگر گھر کوئی ، جلتے نہیں دیکھا
اشک-آنسواحبا ب کی یہ ، شانِ شریفانہ سلامت
دشمن کو بھی یوں ، زہر اگلتے نہیں دیکھا
دوست دشمنخزاں جو آئی تو ، سمجھا بہار کی آمد
مری نگاہ سے ، پھولوں کی تازگی نہ گئی
پھول اور کانٹےوہ حرم میں ہے اور نہ دیر میں ہے
ہم تو دونوں جگہ پکار آئے
دیر و حرم (مندر-مسجد)بیتابیاں بجا مرے ، ذوقِ سجود کی
لیکن اس آستانہ کے لائق ، یہ سر کہاں
در-دیوار-آستاںپھر فصلِ بہاراں میں آباد ہوئے گلشن
میرے دلِ ویراں پر حسرت سی برستی ہے
حسرت و ارماںفریادِ غم سے عرشؔ ، سنبھلتا ہے دل مگر
لیتے ہیں اہلِ دل یہ سہارا کبھی کبھی
دلکیوں لوگ ہوا باندھتے ہیں ، ہمتِ دل کی
ہم نے تو اسے گر کے سنبھلتے نہیں دیکھا
دلدل ہے لیکن دل میں کوئی غم نہیں
یہ مصیبت بھی تو آخر کم نہیں
دلوہ دل جو تھا ، امید و تمنا کا سہارا
گرتی ہوئی دیوار ہے ، معلوم نہیں کیوں
دلتمنا ڈھونڈھتی پھرتی ہے جس کو
مرے پہلو میں اب وہ دل کہاں ہے
دلمیرے دل کی نےرنگی ، پوچھتے ہو کیا مجھ سے
تم نہیں تو ویرانہ ، تم رہو تو بستی ہے
صحرا-ویرانہ-بیاباںجس تمنا پر شباب ، آیا اسے موت آ گئی
زندگی بھی زندگی کے ، نام سے شرما گئی
زندگی-زیست-حیاتمار ڈالا عرشؔ یوں تو ، دوستوں کے قرب نے
یہ غنیمت ہے کہ آخر ، زندگی کام آ گئی
زندگی-زیست-حیاتکتنا فریب کار ہے ، احساسِ بندگی
ہم منزلِ خودی سے ، بہت دور آ گئے
عبادت-بندگی