مانا کہ عزم ترک تمنا کریں گے ہم
تیرے بغیر جی کے بھلا کیا کریں گے ہم
عاشق کی آہ و زاری پہ، نالوں پہ ٹیکس ہو
سب مہوشوں پہ ، ماہ جمالوں پہ ٹیکس ہو
چلے بھی آؤ کہ ہم تم سے پیار کرتے ہیں
یہ وہ گناہ ہے جسے ہم بار بار کرتے ہیں
جام چلنے لگے دل مچلنے لگے
انجم جھوم اٹھی بزم لہرا گئی
جام چلنے لگے دل مچلنے لگے
انجم جھوم اٹھی بزم لہرا گئی
خدا تو ملتا ہے ، انسان ہی نہیں ملتا
یہ چیز وہ ہے ، جو دیکھی کہیں کہیں میں نے
انسان-انسانیت-بشراے آسماں! تیرے خدا کا نہیں ہے خوف
ڈرتے ہیں اے زمین ترے آدمی سے ہم
انسان-انسانیت-بشرخدا! پناہ میں رکھے کشاکشِ غم سے
کہ اس سے تارِ نفس جلد ٹوٹ جاتا ہے
غم المموت و ہستی کی کشاکش ، میں کٹی عمر تمام
غم نے جینے نہ دیا ، شوق نے مرنے نہ دیا
غم الممحبت کو سمجھنا ہے ، تو ناصح خود محبت کر
کنارہ سے کبھی اندازۂ طوفاں نہیں ہوتا
پیار-محبت-الفتانہیں اعتبارِ الفت جو نہ ہو سکا ابھی تک
میں سمجھ گیا یقیناً ، ابھی مجھ میں کچھ کمی ہے
پیار-محبت-الفترشتۂ الفت کو ظالم ، یوں نہ بے دردی سے توڑ
دل تو پھر جڑ جائے گا ، لیکن گرہ رہ جائے گی
پیار-محبت-الفتیہ بزمِ مے ہے ، یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی
جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے
بزم-محفل-انجمنگر کچھ نہ بن پڑی ، تو ڈبو دیں گے سفینہ
ساحل کی قسم ، منتِ طوفاں نہ کریں گے
سفینہ و ساحل-کشتی و طوفاںساحل کے تماشائی ، ہر ڈوبنے والے پر
افسوس تو کرتے ہیں ، امداد نہیں کرتے
سفینہ و ساحل-کشتی و طوفاںدریا کی زندگی پر ، صدقے ہزار جانیں
مجھ کو نہیں گوارا ، ساحل کی موت مرنا
سفینہ و ساحل-کشتی و طوفاںاس موج کی ٹکر سے ، ساحل بھی لرزتا ہے
کچھ روز جو طوفاں کی ، آغوش میں پل آئے
سفینہ و ساحل-کشتی و طوفاںساحل کے سکوں سے ، کسے انکار ہے لیکن
طوفان سے لڑنے میں ، مزہ اور ہی کچھ ہے
سفینہ و ساحل-کشتی و طوفاںطوفان کر رہا تھا ، مرے عزم کا طواف
دنیا سمجھ رہی تھی کہ کشتی بھنور میں ہے
سفینہ و ساحل-کشتی و طوفاںفلک کے تاروں سے کیا ، دور ہوگی ظلمتِ شب
جب اپنے گھر کے چراغوں سے ، روشنی نہ ملی
اندھیرے-اجالے-روشنیمٹانے سے نہیں مٹتیں ، اگر قسمت کی تحریریں
بشر آمادۂ تدبیر کیوں ہے ، ہم نہیں سمجھے
تقدیر-تدبیر-مقدر-نصیبشک نہ کر میری ، خشک آنکھوں پر
یوں بھی آنسو ، بہائے جاتے ہیں
اشک-آنسوبہا جاتا ہے تن ، گھل گھل کے ، اشکوں کی روانی میں
گرے کٹ کٹ کے ، دریا کا کنارہ جیسے پانی میں
اشک-آنسومیرے دامن میں ہیں آنسو ، تیرے آنچل میں بہار
گل بنا سکتی ہے تو ، شبنم بنا سکتا ہوں میں
اشک-آنسوغم تو ہو حد سے سوا ، اور اشک فشانی نہ ہو
اس سے پوچھو ، جس کا گھر جلتا ہو ، اور پانی نہ ہو
اشک-آنسوبہتے ہوئے اشکوں پر ، جب غور کیا میں نے
ہر اشک میں ان کی ہی ، تصویر نظر آئی
اشک-آنسوجن سے دیکھی نہیں جاتی ، مری خستہ حالی
وہی آنسو مری آنکھوں سے ، چھلک جاتے ہیں
اشک-آنسوروک رکھا ہے بہ مشکل ، جنہیں پلکوں پر ہی
اپنے اشکوں کی وہ سوغات ، کسے پیش کروں
اشک-آنسوجانے سے ذرا پہلے ، اشکوں کو تو رکنے دو
اتنا تو ٹھہر جاؤ ، طوفاں تو گزر جائے
اشک-آنسوجب بھی غیروں کی ، عنایت دیکھی
ہم کو اپنوں کے ، ستم یاد آئے
دوست دشمنمرے دل پر دوستوں کا ہی نہیں
دشمنوں کا بھی بڑا احسان ہے
دوست دشمنغیروں کی دوستی پر ، کیوں اعتبار کیجئے
یہ دشمنی کریں گے ، بیگانہ آدمی ہیں
دوست دشمننہ شکوہ رفیق سے ہے ، نہ شکایت رقیب سے
جو کچھ ہوا ، خدا سے ہوا ، یا نصیب سے
دوست دشمناک سیج کا سنگار ، تو ارتھی پہ اک نثار
دو پھول ایک ساتھ ، کھلے تھے بہار میں
پھول اور کانٹےپھولوں کے تو قابل نہیں ، شاید میرا دامن
اے صاحبِ گلشن! اسے کانٹوں سے ہی بھر دے
پھول اور کانٹےچھپنا پڑا گلوں کو بھی ، دامانِ خار میں
کچھ ایسے حادثے بھی ، ہوئے ہیں بہار میں
پھول اور کانٹےہنسو کسی پہ تو ، دونوں جہاں سے ڈر کے ہنسو
گلوں کے لب پہ بھی ، دیکھی تھی کل ہنسی میں نے
پھول اور کانٹےچل پھر کے تم نے رنگ ، چمن کا بڑھا دیا
غنچوں کو پھول ، پھول کو ، گلشن بنا دیا
پھول اور کانٹےخزاں کی رت میں وہ ، کیا مسکرائیں گے یارو
جو غنچے موسمِ گل میں بھی ، مسکرا نہ سکے
پھول اور کانٹےپھولوں کے ساتھ ساتھ ہیں ، حقدار خار بھی
تنہا گلوں کا ہی نہیں ، موسم بہار کا
پھول اور کانٹےرفیقوں سے رقیب اچھے ، جو جل کر نام لیتے ہیں
گلوں سے خار بہتر ہیں ، جو دامن تھام لیتے ہیں
پھول اور کانٹےچمن کا حسن سمجھ کر ، سمیٹ لائے تھے
کسے خبر تھی کہ ہر پھول ، خار نکلے گا
پھول اور کانٹےجب پڑا وقت چمن پہ ، تو لہو ہم نے دیا
اب بہار آئی تو کہتے ہیں ، ترا کام نہیں
پھول اور کانٹےپھولوں کے ساتھ ساتھ ہیں ، حقدار خار بھی
تنہا گلوں کا ہی نہیں موسم بہار کا
پھول اور کانٹےبھلا کیوں نہ کانٹوں کو ، دل سے لگائے
وہ جس نے گلوں سے بھی ، ہوں زخم کھائے
پھول اور کانٹےان آبلوں سے پاؤں کے ، گھبرا گیا تھا میں
دل خوش ہوا ہے راہ کو ، پرخار دیکھ کر
پھول اور کانٹےگل ہائے زندگی تو کھلے ، اور بکھر گئے
کانٹے جو زیرِ سایۂ گل تھے ، ابھر گئے
پھول اور کانٹےکیسے مسجد میں ، پیوں میں زاہد
ایک بوتل ہے ، خدا مانگ نہ لے
دیر و حرم (مندر-مسجد)جس میں لاکھوں برس کی حوریں ہوں
ایسی جنت کا ، کیا کرے کوئی
جنت و جہنمگناہ گاروں کے دل سے ، نہ بچ کے چل زاہد
یہیں کہیں تری جنت بھی ، پائی جاتی ہے
جنت و جہنمکسی دیوار نے سیلِ جنوں ، روکا نہیں اب تک
یہ مصرع کوئی مجنوں ، لکھ گیا دیوارِ زنداں پر
در-دیوار-آستاںسجدہ ہو بےخلوص ، تو سجدہ بھی ہے گناہ
لغزش میں ہو خلوص تو ،لغزش نماز ہے
سجدہ و جبیں (نماز ، پیشانی)دنیا میں وہی شخص ہے تعظیم کے قابل
جس شخص نے حالات کا رخ موڑ دیا ہے
دنیا-کائنات-جہاںخدا جانے یہ دنیا ، جلوہ گاہِ ناز ہے کس کی
ہزاروں اٹھ گئے لیکن ، وہی رونق ہے مجلس کی
دنیا-کائنات-جہاںمیری آنکھیں اور ، دیدار آپ کا
یا قیامت آ گئی ، یا خواب ہے
حشر-محشر-قیامتخود منانے جنہیں ، رحمتِ حق آئی ہے
اونچے درجہ کے گنہ گار نظر آتے ہیں
گناہ-گنہ گار-بےگناہاے رحمتِ تمام کرم جب ہیں بےشمار
ناحق مرے گناہ کا ، پھر کیوں کر حساب ہو
گناہ-گنہ گار-بےگناہمرے گناہ بڑے ہیں ، کہ تری رحمت ہے
مرے کریم بتا دے ، حساب کرکے مجھے
گناہ-گنہ گار-بےگناہاس بھروسہ پہ کر رہا ہوں گناہ
بخش دینا تو تیری فطرت ہے
گناہ-گنہ گار-بےگناہجب بہاروں نے نہ پایا ، کوئی بھی اپنا مقام
تیرے ہونٹوں کے تبسم سے لپٹ کر سو گئی
لب-رخسار-عارض-بوسہکیا نزاکت ہے کہ عارض ان کے نیلے پڑ گئے
ہم نے بوسے لیا تھا خواب میں تصویر کا
لب-رخسار-عارض-بوسہمجھ کو یہ آرزو ، وہ اٹھائیں نقاب خود
ان کو یہ انتظار ، تقاضا کرے کوئی
نقاب-حجاب-پردہمسکرا کر اک نگاہِ مست ، سب پر ڈال دو
ہم بھی دیکھیں انجمن میں کتنے اہلِ ہوش ہیں
نگاہ-نظر-چشمتو اور چشمِ لطف نئی ، واردات ہے
میری نگاہ نے مجھے دھوکا دیا نہ ہو
نگاہ-نظر-چشمتم نے سورج کبھی پچھم سے نکلتے دیکھا
اس کو وعدہ نہیں کہتے ، جو وفا ہو جائے
وعدہ-تغافلوہ بزم دیکھی ہے میری نگاہ نے کہ جہاں
بغیر شمع بھی جلتے رہے ہیں پروانے
شمع و پروانہاے شمع! تیری عمرِ طبیعی ، ہے اک رات
ہنس کر گزار یا اسے ، رو کر گزار دے
شمع و پروانہنشیمن میں ہی کون سے سکھ ملے ہیں
جو روؤں نشیمن کو رہ کر قفس میں
برق و نشیمنملے گی کوئی مسرت تو جی نہ پائیں گے
کٹی ہے عمر غموں سے نباہ کرتے ہوئے
ہنسی-خوشی-مسرتحادثوں سے جذبۂ تعمیر رکتا ہے کہیں
بجلیاں گرتی رہیں اور آشیاں بنتا رہا
آشیاں-آشیانہیہ کس نے شاخِ گل لا کر قریبِ آشیاں رکھ دی
کہ میں نے شوقِ گل بوسی میں کانٹوں پر ، زباں رکھ دی
آشیاں-آشیانہدل کے آئینہ میں ہے تصویرِ یار
اک جب ذرا گردن جھکائی ، دیکھ لی
آئینہ-شیشہان آئینوں کو اٹھا کر کمروں سے باہر پھینک دو
بےادب یہ کہہ رہے ہیں ہم پرانے ہو گئے
آئینہ-شیشہہم نہ کہتے تھے کہ ، دیکھو نہ تم آئینہ
آئینہ بنے بیٹھے ہو ، آئی نہ وہی بات
آئینہ-شیشہیوں تو آئینہ میں کوئی عیب نہیں
صاف دل ہے بس یہی اک برائی ہے
آئینہ-شیشہرک گئیں گردشیں زمانے کی
ان کے ماتھے پہ جب شکن آئی
زمانہزمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے
زمانہیہ ہوش و خرد والے آپس میں لڑیں لیکن
دیوانے سے دیوانہ شاید ہی لڑا ہوگا
جنون-دیوانگییہ کہہ کر دیا اس نے دردِ محبت
جہاں ہم رہیں گے یہ ساماں رہے گا
دکھ-درداک دل کا درد تھا کہ رہا زندگی کے ساتھ
اک دل کا چین تھا کہ سدا ڈھونڈھتے رہے
دکھ-درددردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
دکھ-دردجس جگہ دیکھو اس جگہ موجود
درد ، اللہ سا لگے ہے مجھے
دکھ-دردزندگی کیا ہے دم بہ دم چلنا
موت کیا ہے تھکن خیالوں کی
موت-ازل-قضاتم گل سے گال قبر پہ رکھتے تو بات تھی
کیا فائدہ جو پھولوں کا انبار کر دیا
گور-و-کفن-قبر-تربتآئے وہ میری قبر پر لیکن عدو کے ساتھ
مر کر بھی میں نے چین ، نہ پایا مزار میں
گور-و-کفن-قبر-تربتزمین قبر کی ، ہم نے خرید رکھی ہے
خدا کا شکر ہے ہم بھی مکان والے ہیں
گور-و-کفن-قبر-تربتگل سے بھی نازک بدن ہے ، اس کا لیکن دوستو
یہ غضب کیا ہے کہ دل ، پہلو میں پتھر کا بنا
دلدل کی مفارقت کو ، کہاں تک نہ روئیے
اللہ ایک عمر کا ، ساتھی بچھڑ گیا
دلدل ٹوٹنے سے تھوڑی سی تکلیف تو ہوئی
لیکن تمام عمر کا آرام ہو گیا
دلدل کے آئینہ میں ہے تصویرِ یار
اک ذرا گردن جھکائی ، دیکھ لی
دلرہو دل میں ورنہ یہ عالم کہے گا
کہ یہ اپنے گھر سے نکالے ہوئے ہیں
دلکاش لے آتے زباں تک ، دل کو ہم
بےزباں ہو کر بھی رسوا ہو گئے
دلمحبت کے لئے دل ڈھونڈھ کوئی ٹوٹنے والا
یہ وہ مے ہے جسے رکھتے ہیں نازک آبگینوں میں
دلوحشتیں کچھ اس قدر ، اپنا مقدر بن گئیں
ہم جہاں پر بھی گئے ہیں ، ساتھ ویرانے گئے
صحرا-ویرانہ-بیاباںسب کچھ خدا سے مانگ لیا ، تجھ کو مانگ کر
اٹھتے نہیں ہیں ہاتھ مرے ، اس دعا کے بعد
دعا-دوا-شفاخزاں کی رات تڑپ کے کاٹنے والے
تجھے بہار میں نیند آ گئی تو کیا ہوگا
بہار-و-خزاںہم چمن میں گئے بارہا لیکن
کبھی بہار سے پہلے کبھی بہار کے بعد
بہار-و-خزاںمغرور نہ ہو فصلِ خزاں ، آ کے چمن میں
ایسے بھی ہیں کچھ پھول ، جو مرجھا نہیں سکتے
بہار-و-خزاںمل ہی جائے گی کہیں ، ڈھونڈھنے والوں کو مگر
ہر گلستاں میں خزاں ہو ، یہ ضروری تو نہیں
بہار-و-خزاںنہ خزاں میں ہے کوئی تیرگی ، نہ بہار میں کوئی روشنی
یہ نظرنظر کے چراغ ہیں ، کہیں جل گئے کہیں بجھ گئے
بہار-و-خزاںوہ اگر مجھ کو نہ بھولیں ، تو بھلائیں کس کو
ہم اگر ان کو بھلا دیں تو کسے یاد کریں
یادچلو اچھا ہوا محرومیوں میں کٹ گئی اپنی
کسی کو یاد کیا کرتے ، کسی کو یاد کیا آتے
یادیوں تو رہتی ہے تصور میں تمہاری صورت
پھر بھی مل جاؤ تو تسکین سی ہو جاتی ہے
تصور-خیالتصور میں ہی آ جاتے تمہارا کیا بگڑ جاتا
تمہارا پاس رہ جاتا ، ہمیں دیدار ہو جاتا
تصور-خیالوصل میں خالی ہوئی غیر سے محفل تو کیا
شرم بھی جائے تو میں جانوں کہ تنہائی ہوئی
ہجر-و-وصالہم باوفا تھے اس لئے نظروں سے گر گئے
شاید انہیں تلاش کسی بےوفا کی تھی
وفا-جفاضبط کر اے دل ، وہ آنسو جو کہ چشمِ تر میں ہے
کچھ نہیں بگڑا ابھی کہ گھر کی دولت گھر میں ہے
آنکھپلکوں کی حد کو توڑ کے دامن میں آ گرا
اک اشک صبر کی توہین کر گیا
آنکھبند تھی آنکھیں کسی کی یاد میں
موت آئی اور دھوکا کھا گئی
آنکھنازکی ختم ہے ان پر جو یہ فرماتے ہیں
فرشِ مخمل پہ مرے پاؤں چھلے جاتے ہیں
ناز-انداز-نزاکت-اداکیا نزاکت ہے کہ ، عارض ، ان کے نیلے پڑ گئے
ہم نے تو بوسہ لیا تھا ، خواب میں ، تصویر کا
ناز-انداز-نزاکت-اداشانہ پہ زلف ، زلف میں دل ، دل میں حسرتیں
اتنا ہے بوجھ سر پہ ، نزاکت کہاں رہی
ناز-انداز-نزاکت-اداہم ایسے ناتواں ، وہ ایسے نازک
اٹھائے کون پردہ درمیاں سے
ناز-انداز-نزاکت-اداذرا سی بات میں قصہ تمام ہوتا ہے
ادا سے دیکھ لو اک بار نیم جاں کی طرف
ناز-انداز-نزاکت-اداسخت نازک مزاج ، دلبر تھا
خیر گزری کہ دل بھی ، پتھر تھا
ناز-انداز-نزاکت-ادادنیا بھلا چکی ، ہے مجھے یہ درست ہے
یہ تو نہیں ہے کہ ، بھول گیا ہے خدا مجھے
کعبہ-بت-بت کدہ-بت خانہکہاں جائے اٹھ کر بتوں کی گلی سے
یہیں سے ہے کعبہ کو ، سجدہ ہمارا
کعبہ-بت-بت کدہ-بت خانہمٹایا ہے ہمیں نے اس کو ورنہ کیا سے کیا ہوتی
ہماری داستاں جتنا گلہ ہم سے کرے کم ہے
گلہ-شکوہجنہیں زمین پہ رہنے کا بھی شعور نہیں
انہیں کا ہے یہ تقاضا کہ آسماں لے لو
زمیں-آسماں-فلک-عرشآہ جاتی ہے فلک پر رحم لانے کے لئے
بادلو ہٹ جاؤ دے دو راہ ، جانے کے لئے
زمیں-آسماں-فلک-عرشجہاں میں جن کی امیدوں کے بیڑے پار ہوتے ہیں
جہاں میں ایسے انساں تو فقط دو چار ہوتے ہیں
امید-توقع-آسآہٹ پہ کان ، در پہ نظر ، دل میں اشتیاق
کچھ ایسی بےخودی ہے ترے انتظار میں
امید-توقع-آسہزار شکر کہ مایوس کر دیا تو نے
یہ اور بات کہ تجھ سے بہت امیدیں تھیں
امید-توقع-آسکرم کی توقع تو کیا تم سے ہوگی
ستم بھی کرو گے تو احسان ہوگا
امید-توقع-آسجو ستم غیر کے قابل تھا ، وہ مجھ پر ہوتا
کاش تو میرے اکیلے کا ستم گر ہوتا
ظلم و ستم - رحم و کرمتیرا کرم تو عام ہے دنیا کے واسطے
ہم کتنا لے سکے یہ مقدر کی بات ہے
ظلم و ستم - رحم و کرمتقدیر کے قدموں میں سر رکھ کے پڑے رہنا
تائیدِ ستم گر ہے چپ رہ کے ستم سہنا
ظلم و ستم - رحم و کرممیں تری یاد میں ہوں اے کافر!
مسجدوں میں نماز ہوتی ہے
کفر-ایمان-کافریہ بزمِ مے ہے یاں ، کوتاہ دستی میں ہے محرومی
جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں ، مینا اسی کا ہے
مے-شراب-مینامحتسب نہ پھینک ارے محتسب نہ پھینک
ظالم! شراب ہے ارے ظالم! ، شراب
مے-شراب-میناجام ساقی نے جو بے رخی سے دیا
مے کدے سے چلے آئے ہم بے پئے
ساقیخطا میری نہ تھی زاہد! غلط فہمی تھی ساقی کی
وہ بھر کر جام لے آیا ، میں کہتا رہ گیا ، "لا،لا"
ساقیاس طرف رخ تری رحمت کا جو دیکھا دمِ حشر
مل گئے دوڑ کے زاہد بھی گنہ گاروں میں
واعظ-زاہد-ناصح-شیخاحساس مر نہ جائے تو انسان کے لئے
کافی ہے ایک بار کی ٹھوکر لگی ہوئی
احساساحساس سے انداز بدل جاتے ہیں ورنہ
دامن بھی ، اسی تار سے ، بنتا ہے کفن بھی
احساسفطرت کبھی نہ لالہ و گل کی بدل سکی
آ آ کے انقلاب گلستاں میں رہ گئے
فطرت-عادتاک تنکے نے کسی طوفان کے
ساتھ اڑکر جا لیا آکاش چھو
میرے پسندیدہ اشعاریہ عشق نہیں آساں ہم نے تو یہ جانا ہے
کاجل کی لکیروں کو آنکھوں سے چرانا ہے
میرے پسندیدہ اشعارجان لینی تھی لے لئے ہوتے
مسکرانے کی کیا ضرورت تھی
میرے پسندیدہ اشعارسیتا کی آبرو کا ہے تجھ کو اگر خیال
راموں کے بھیس میں چھپے راون تلاش کر
میرے پسندیدہ اشعارسوچتا ہوں سیکھ لوں مکاریاں
بیٹھنا ہے آج کچھ یاروں کے بیچ
میرے پسندیدہ اشعارہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچہ نہیں ہوتا
میرے پسندیدہ اشعارمدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے
میرے پسندیدہ اشعارکل جو اٹھتے تھے بٹھانے کے لئے
آج بیٹھے ہیں اٹھانے کے لئے
میرے پسندیدہ اشعارجو پڑی دل پہ سہہ گئے لیکن
ایک نازک سی بات نے مار ڈالا
میرے پسندیدہ اشعارغم کا طوفاں بھی گزر ہی جائے گا
مسکرا دینے کی عادت چاہئے
میرے پسندیدہ اشعارمجھے شرع سے کوئی چڑھ نہیں ، پر اس اتفاق کا کیا کروں
کہ جو وقت بادہ کشی کا ہے وہی وقت بھی ہے نماز کا
میرے پسندیدہ اشعارآدم کو مت خدا کہو ، آدم خدا نہیں
لیکن خدا کے نور سے آدم جدا نہیں
میرے پسندیدہ اشعاردیر کعبہ سے جدا ، کعبہ کلیسا سے جدا
ان کو میخانہ کے سنگم پہ ملا دے ساقیا
میرے پسندیدہ اشعارجب جب مسجد جانا پڑا ہے
راہ میں اک میخانہ پڑا ہے
میرے پسندیدہ اشعاربلبل کو پیار باغ سے ، کوئل کو بن سے پیار
کیوں کر نہ آدمی کو ہو اپنے وطن سے پیار
میرے پسندیدہ اشعاردیر ہوئی آنے میں تم کو ، شکر ہے پھر بھی آئے تو
آس نے دل کا ساتھ نہ چھوڑا ، ویسے ہم گھبرائے تو
میرے پسندیدہ اشعارمجھے اٹھانے کو آیا ہے واعظِ ناداں
جو ہو سکے تو مرا ساغرِ شراب اٹھا
میرے پسندیدہ اشعارمے کدہ میں کبھی تو آ واعظ
ایک دنیا یہاں بھی بستی ہے
میرے پسندیدہ اشعارکل رات میکدہ میں عجب حادثہ ہوا
واعظ مرے حساب میں پی کر چلا گیا
میرے پسندیدہ اشعارکوئی ان پھولوں کی قسمت دیکھنا
زندگی کانٹوں میں پل کر رہ گئی
میرے پسندیدہ اشعارہوتا نہیں ہے کوئی برے وقت میں شریک
پتے بھی بھاگتے ہیں خزاں میں شجر سے دور
میرے پسندیدہ اشعارکانٹوں نے مبارک کام کیا
پھولوں کی حفاظت کر بیٹھے
میرے پسندیدہ اشعاراے مرے ہم نشیں چل کہیں اور چل
اس چمن میں اب اپنا گزارا نہیں
میرے پسندیدہ اشعاربات ہوتی گلوں کی تو سہہ لیتے
اب تو کانٹوں پہ بھی حق ہمارا نہیں
میرے پسندیدہ اشعارہم نے اپنے آشیانہ کے لئے
جو چبھیں دل میں وہی تنکے لئے
میرے پسندیدہ اشعارعشق جب تک نہ کر چکے رسوا
آدمی کام کا نہیں ہوتا
میرے پسندیدہ اشعارعشق میں خواب کا خیال کسے
نہ لگی آنکھ جب سے آنکھ لگی
میرے پسندیدہ اشعارپیدا ہوئے تو ہاتھ جگر پر دھرے ہوئے
کیا جانے ہم ہیں کب سے کسی پر مرے ہوئے
میرے پسندیدہ اشعاردل ٹوٹنے سے تھوڑی سی تکلیف تو ہوئی
لیکن تمام عمر کا آرام ہو گیا
میرے پسندیدہ اشعارابھی کمسن ہو ، رہنے دو ، کہیں کھو دو گے دل میرا
تمہارے ہی لئے رکھا ہے ، لے لینا جوان ہو کر
میرے پسندیدہ اشعارجھکتی ہے نگاہ اس کی مجھ سے مل کر
دیوار سے دھوپ اتر رہی ہو گویا
میرے پسندیدہ اشعاران کو آتا ہے پیار پر غصہ
ہم کو غصہ پہ پیار آتا ہے
میرے پسندیدہ اشعاررفیقوں سے رقیب اچھے جو جل کر نام لیتے ہیں
گلوں سے خار بہتر ہیں جو دامن تھام لیتے ہیں
میرے پسندیدہ اشعارغیر کو آنے نہ دوں ، تم کو کہیں جانے نہ دوں
کاش مل جائے تمہارے در کی دربانی مجھے
میرے پسندیدہ اشعارگھروں پہ نام تھے ناموں کے ساتھ کے عہدے تھے
بہت تلاش کیا کوئی آدمی نہ ملا
میرے پسندیدہ اشعارہم وپ دریا ہیں جسے اپنا ہنر معلوم ہے
جس طرف بھی چل پڑیں گے راستے بن جائیں گے
میرے پسندیدہ اشعارآج اپنی فالتو چیزیں جدا کرتا ہوں میں
ہے کوئی جس کو شرافت چاہئے
میرے پسندیدہ اشعارمسجد خدا کا گھر ہے یہ پینے کی جا نہیں
کافر کے دل میں جا کہ وہاں پر خدا نہیں
میرے پسندیدہ اشعارجن کے آنگن میں دولت کے شجر اگتے ہیں
ان کے ہر عیب دنیا کو ہنر لگتے ہیں
میرے پسندیدہ اشعاراب ساتھ چھوڑ دے تو خطا زندگی کی کیا
ہم خود ہی اتنا تیز چلے تھے کہ تھک گئے
زندگی-زیست-حیاتچلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موجِ حوادث سے
اگر آسانیاں ہوں زندگی دشوار ہو جائے
زندگی-زیست-حیاتزندگی ، زندہ دلی کا نام ہے
مردہ دل ، کیا خاک جیا کرتے ہیں
زندگی-زیست-حیاتکون سا جھونکا ، بجھا دے گا ، کسے معلوم ہے
زندگی کی شمع ، روشن ہے ، ہوا کے سامنے
زندگی-زیست-حیاتآپ مجھ کو ، اگر اجازت دیں
آپ کو ، اپنی زندگی کہہ دوں
زندگی-زیست-حیاتڈبو کے سارے سفینے ، قریب ساحل کے
ہے ان کو پھر بھی یہ دعویٰ ، کہ ناخدا ہم ہیں
خدا -ناخداخدا کے ڈر سے ہم تم کو ، خدا تو کہہ نہیں سکتے
مگر لطفِ خدا ، قہرِ خدا ، شانِ خدا ، تم ہو
خدا -ناخدافانوس بن کے جس کی حفاظت خدا کرے
وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے
خدا -ناخداخدا اور ناخدا مل کر ڈبو دیں ، یہ تو ممکن ہے
فقط طوفاں تباہی کا تو ، باعث ہو نہیں سکتا
خدا -ناخداجو جان ہے موسم کی اب جانے کہاں ہے وہ
پانی تو برستا ہے برسات نہیں ہوتی
خدا -ناخداستم کو وہ کرم ثابت کریں گے
ذہانت ان کو بخشی ہے خدا نے
خدا -ناخداترے کرم کے بھروسہ پہ ، حشر میں یا رب
گناہ لایا ہوں ، اور بےحساب لایا ہوں
خدا -ناخداجب سفر بےسمت ہو جائے ، تو پھر ،منزل کہاں
کھونے والے نے کبھی ، اس راز کو پایا نہیں
منزل-کارواں-قافلہخیر گزری کہ نہ پہنچی ترے در تک ورنہ
آہ نے آگ لگا دی ہے جہاں ٹھہری ہے
آہ-فغاں-فریادمرنے کی آرزو مجھے مدت سے تھی مگر
لیکن یہ کام ہو نہیں سکتا جئے بغیر
تمنا-آرزو-خواہشوہ جام ہوں جو خونِ تمنا سے بھر گیا
یہ میرا ظرف ہے کہ چھلکتا نہیں ہوں میں
تمنا-آرزو-خواہشآرزو وصل کی رکھتی ہے پریشاں کیا کیا
کیا بتاؤں کہ مرے دل میں ، ہیں ارماں کیا کیا
تمنا-آرزو-خواہشجب تک ملے نہ تھے ، تو جدائی کا تھا ملال
اب یہ ملال ہے ، کہ تمنا نکل گئی
تمنا-آرزو-خواہشکہہ رہا ہے موجِ دریا سے سمندر کا سکوت
جس میں جتنا ظرف ہے اتنا ہی وہ خاموش ہے
تسلی-تسکین-سکونکسی اک آدھ مےکش سے خطا کچھ ہو گئی ہوگی
مگر کیوں مےکدے کا مےکدہ بدنام ہے ساقی
مےکدہ-مےخانہاتنا کہاں تھا ہوش کہ مسجد سدھارتے
واعظ نے مےکدہ میں مصلّیٰ بچھا لیا
مےکدہ-مےخانہموسمِ گل میں عجب رنگ ہے مےخانے کا
شیشہ جھکتا ہے کہ منہ چوم لے پیمانے کا
مےکدہ-مےخانہترکِ مے کی ضد نے آخر طول کھینچا اس قدر
شیخ میرے ساتھ میخانے میں داخل ہو گئے
مےکدہ-مےخانہبہار آئی ہے بھر دے ، وعدۂ گلگوں سے پیمانہ
رہے لاکھوں برس ساقی ، ترا آباد میخانہ
مےکدہ-مےخانہپوچھو کسی غریب کے اجڑے دیار سے
بیٹھا ہے کیوں خموش در و بام کی طرح
غریب-مفلس-افلاسہو برا انسان کے افلاس کا
چھین لیتا ہے سبھی اچھائیاں
غریب-مفلس-افلاسمجھ کو شکوہ ہے اپنی آنکھوں سے
تم نہ آئے تو نیند کیوں آئی
آنکھ-چشمدل تو شوقِ دید میں تڑپا کیا
آنکھ ہی کم بخت شرماتی رہی
آنکھ-چشمفریاد کر رہی ہے وہ ترسی ہوئی نگاہ
دیکھے ہوئے کسی کو زمانہ گزر گیا
آنکھ-چشماٹھ رہی ہے وہ آنکھ رک رک کر
قتل میں ہو رہا ہوں قسطوں میں
آنکھ-چشمرہ گئے لاکھوں کلیجہ تھام کر
آنکھ جس جانب تمہاری اٹھ گئی
آنکھ-چشمکچھ روز یہ بھی رنگ رہا انتظار کا
آنکھ اٹھ گئی جدھر ، بس ادھر دیکھتے رہے
آنکھ-چشممزہ برسات کا چاہو تو ان آنکھوں میں آ بیٹھو
سیاہی ہے ، سفیدی ہے ، شفق ہے ، ابرِ باراں ہے
آنکھ-چشمایک بندہ بھی نہیں ، ہو جس کا مذہب بندگی
کوئی کافر ہو گیا ، کوئی مسلماں ہو گیا
عبادت-بندگیتری یاد ہے مری بندگی ، تری داد میری نماز ہے
مری بندگی تو ہے مختصر ، ترے غم کی عمر دراز ہے
عبادت-بندگیہر حقیقت ، مجاز ہو جائے
کافروں کی ، نماز ہو جائے
عبادت-بندگی