نفرتیں دل سے مٹاؤ تو کوئی بات بنے
پیار کی شمعیں جلاؤ تو کوئی بات بنے
نیکی بدی کی اب کوئی میزان ہی نہیں
ایماں کی بات یہ ہے کہ ایمان ہی نہیں
شمع اخلاص و یقیں دل میں جلا کر چلئے
ظلمت یاس میں امید جگا کر چلئے
رسم الفت جہاں میں عام کرو
پیار سے دشمن کو رام کرو
اس کو غرور حسن نے کیا کیا بنا دیا
پتھر بنا دیا کبھی شیشہ بنا دیا
منزلِ صدق و صفا کا راستہ اپنائیے
کاروانِ زندگی کے رہنما بن جائیے
پلکوں پہ انتظار کا موسم سجا لیا
اس سے بچھڑکے روگ گلے سے لگا لیا
پتھر ہی رہنے دیجئے شیشہ نہ کیجئے
احباب سے وفا کا تقاضا نہ کیجئے
یہ شنکھ یہ اذان سلامت رہے تو اچھا ہے
وطن کی شان سلامت رہے تو اچھا ہے
جو ضروری ہے کار کر پہلے
شکرِ پروردگار کر پہلے
جو بھی دیتا ہے وہ بندے کو خدا دیتا ہے
پیڑ کا سایہ بھلا پیڑ کو کیا دیتا ہے
برکت ہمارے رزق میں آئے گی کس طرح
گھر میں ہمارے جب کوئی مہمان ہی نہیں
اشوک ساہنی ملک میں کلائی گھڑی ڈائل صنعت کے ستون ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی خصوصیات میں اردو شعر و شاعری ، صحیح معنوں میں جوکھم لینے والی تجارتی مہم جوئی اور زبانی مہارت شامل ہیں۔ ان کا خوشگوار مزاج ہر ایک بلکہ سبھی کے لئے لطف اندوز کرنے والا ہے۔
انہوں نے ایک سچے کاروباری کی شکل میں 1965 میں لنگنڈارف واچ کمپنی ، سوئٹزرلینڈ میں اہم تجربہ حاصل کرنے کے بعد ملک میں 1970 میں پہلی بار کلائی گھڑی ڈائل تعمیری یونٹ قائم کی۔ ایک سچے وطن پرست کے ناطے ان کا اصل ارادہ درآمد پر انحصار کم کرنا تھا۔ اب ایسے پانچ تعمیری یونٹ چل رہے ہیں اور ان میں 2000 ملازمین کام کر رہے ہیں۔ حال میں وہ سوئس ملٹری کے عالمی صدر ہیں ، جو کہ سوئٹزرلینڈ کا سب سے زیادہ مقبول اور بڑے پیمانے پر کامیاب ایک اہم لائف اسٹائل رٹیل برانڈ ہے۔ دنیا کے تقریباً 15 ملکوں میں ان کی مصنوعات کی فروخت ہوتی ہے۔ وہ کئی اداروں کے ٹرسٹی کا عہدہ بھی مؤثر طریقہ سے نبھا رہے ہیں۔
آپ کو آئی ایس او 902 کے ذریعہ تصدیق شدہ ہو کر رہنما راہ پر آگے بڑھتے ہوئے 2002 میں صنعتی ترقی و تجارتی ادارے نے 'صنعت خط اعزاز' سے نوازا ہے۔
جناب ساہنی سات زبانوں میں ماہر ہیں اور پوری طرح روشن خیال شاعر ہیں۔ اردو کی کئی اکادمیوں ، مسلم اداروں نیز اردو کے معروف شعراء نے ان کے اس شعری انتخاب کی کھلے دل سے تعریف کی ہے اور انہیں اس کے لئے خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔وہ ان سماجی اداروں کی اہم ذمہ داریوں کو بحسن و خوبی ادا کر رہے ہیں۔
ڈھونڈھا بہت نظر نہیں آیا مجھے اشوکؔ
لگتا ہے میرے عہد کا انسان مر گیا
انسان-انسانیت-بشرمیں انساں ہوں ، مجھے انسانیت سے پیار ہے یارو!
فقط دیر و حرم کی پاسبانی میں نہیں کرتا
انسان-انسانیت-بشرکیا لذتِ گناہ سے واقف نہیں ہے شیخ
فطرت میں ہے گناہ تو انسان کیا کرے
انسان-انسانیت-بشرہائے اس کافر کے ، دستِ ناز سے
شیخ جی پیتے ہی ، انساں ہو گئے
انسان-انسانیت-بشرغم و خوشی میں ہمیشہ ، خدا جو یاد رہے
تو گھر کے کانٹوں میں بھی ، انسان دل سے شاد رہے
انسان-انسانیت-بشربخشیں خدا نے جس کو زمانہ کی راحتیں
وہ خوش نہ رہ سکے ، تو کوئی اس کا کیا کرے
انسان-انسانیت-بشرختم ہوتی جا رہی ہے ، آدمیت شہر سے
خصلتیں دیکھو تو انساں ، بھیڑئے سے کم نہیں
انسان-انسانیت-بشراتنا غمِ حیات نے مایوس کر دیا
اب تو تمہاری یاد بھی ، آتی نہیں مجھے
غم المزندگی کا ایک رخ ، سچا لگا
مجھ کو تجھ سے ، تیرا غم اچھا لگا
غم المآتے نہیں ہیں تنگ کبھی ، زندگی سے ہم
نزدیک غم کو رکھتے ہیں ، اپنی خوشی سے ہم
غم المہم کو ہر غم دیا ہے اپنوں نے
ہم کو اپنوں سے کچھ امید نہیں
غم الممیں انساں ہوں ، مجھے انسانیت سے پیار ہے یارو!
فقط دیر و حرم کی پاسبانی میں نہیں کرتا
پیار-محبت-الفتدوستوں اور دشمنوں میں ، فرق بس جزبہ کا ہے
دوست جب نفرت کریں گے ، غیر ہی کہلائیں گے
پیار-محبت-الفترسوا ہو جائے زمانے میں نہ الفت میری
اشک بن کر نہ ٹپک جائے محبت میری
پیار-محبت-الفتزمانہ نے لگائیں لاکھ ہم پر بندشیں لیکن
سرِ مھفل میری نظروں نے تم سے گفتگو کر لی
بزم-محفل-انجمنشیخ نے آتے ہی بزمِ مے کو ، برہم کر دیا
اچھی خاصی میری جنت کو ، جہنم کر دیا
بزم-محفل-انجمنبھروسہ ناخداؤں کا مری کشتی کو لے ڈوبا
اگر طوفاں سے لڑ جاتے تو بیڑا پار ہو جاتا
سفینہ و ساحل-کشتی و طوفاںشکستہ ہی سہی کشتی ، مگر طوفاں سے ٹکر لے
جو ہمت ہار جاتے ہیں ، انہیں ساحل نہیں ملتا
سفینہ و ساحل-کشتی و طوفاںبھروسہ ناخداؤں پر ، جو کرتے ہیں سمندر میں
بساوقات ان کے ہی ، سفینے ڈوب جاتے ہیں
سفینہ و ساحل-کشتی و طوفاںکتنے طوفان کئے ، عزم نے اپنے غرقاب
ہم سے طوفاں نہیں ، طوفان سے ہم ٹکرائے
سفینہ و ساحل-کشتی و طوفاںاس میں بھی ناخداؤں کی ، سازش کا ہاتھ ہے
طوفاں ہے منتظر مرا ، ساحل کے آس پاس
سفینہ و ساحل-کشتی و طوفاںزندگی غم سے سنورتی ہے ، نہ گھبرا اے دوست!
حد سے بڑھ جائے اندھیرا ، تو سحر ہوتی ہے
اندھیرے-اجالے-روشنیعمر بھر شمع کی مانند ، جلایا دل کو
پھر بھی دنیا کو شکایت ہے اجالا کم ہے
اندھیرے-اجالے-روشنیچاہے ہر سو ہو مسلّط شبِ ظلمت پھر بھی
ہم کو کرنی ہے اجالوں کی حفاظت پھر بھی
اندھیرے-اجالے-روشنیتیرگی بڑھنے لگی ، اپنی حدوں سے آگے
مشعلیں دن میں جلاؤ ، تو کوئی بات بنے
اندھیرے-اجالے-روشنیہوش و حواس یاد میں ، اس کی گنوا دئے
اب امتیازِ شام و سحر بھی نہیں مجھے
شام و سحرزندگی غم سے سنورتی ہے ، نہ گھبرا اے دوست!
حد سے بڑھ جائے اندھیرا ، تو سحر ہوتی ہے
شام و سحرلکھا تقدیر میں جو ہے ، نہ ہو ، کیسے یہ ممکن ہے
لکھی تقدیر میں پیری ، تو پھر میری کہاں سے ہو
تقدیر-تدبیر-مقدر-نصیبتیری تصویر بنائی تو تھی آنکھوں میں
بہہ کے اشکوں نے ، مٹا دی ہوگی
اشک-آنسوزندگی میں ، اس قدر صدمے سہے
دل پگھل کر ، آنکھ سے بہنے لگا
اشک-آنسوتھا فلک بھی ، شریکِ غم میرا
لوگ کہتے ہیں ، اشک کو شبنم
اشک-آنسواس میں پنہاں ہیں شکر کے جذبات
یہ تو جاناں ، خوشی کے آنسو ہیں
اشک-آنسواس سے بڑھ کر ، کوئی بھی نشہ نہیں
ضبطِ غم میں ، آنسؤوں کو پی گیا
اشک-آنسوہے مرے لب پہ تبسم رقصاں
یہ الگ بات کہ دل روتا ہے
اشک-آنسوآگ پنہاں تھی ، مرے اشکوں میں
آپ سمجھے تھے ، آب کے قطرے
اشک-آنسوغم تو غم ہے ، خوشی میں بھر آئے
مجھ کو اشکوں پہ ، اعتبار نہیں
اشک-آنسوہم تو خوشبو ہیں ، اگر ساتھ ہوا کا ، مل جائے
دوست تو دوست ہیں ، دشمن کے بھی گھر جائیں گے
دوست دشمنغم سے ناطہ توڑ کر اے دل! سدا پچھتائے گا
غم رفیقِ زندگی ہے ساتھ تیرے جائے گا
دوست دشمندوستوں اور دشمنوں میں فرق بس جزبے کا ہے
دوست جب نفرت کریں گے غیر ہی کہلائیں گے
دوست دشمندشمنی ہوتی ہے آخرکار کیا
دوستی کا رخ پلٹ کر دیکھ لو
دوست دشمنچاہتا ہے تو اگر دل سے سکونِ دائمی
اپنے دشمن کی بجائے دشمنی کو قتل کر
دوست دشمنایک مدت میں حقیقت یہ کھلی
دوستی کی انتہا ہے دشمنی
دوست دشمنمنافق دوستوں کے درمیاں جینا قیامت ہے
خدا کا شکر ہے لیکن ، مرا ایماں سلامت ہے
دوست دشمنعدو پر اس قدر ، احسان پر احسان کرتا جا
کہ دشمن دوستی کرنے پہ ، خود مجبور ہو جائے
دوست دشمنرہتے تھے وہ جو دل میں بچھڑے نہ تھے کبھی
فرما رہے ہیں دفن میں تاخیر کیوں ہوئی
دوست دشمندوستوں کا ہائے اندازِ خلوص
دشمنی بھی دل پکڑ کر رہ گئی
دوست دشمنتاکہ چھو لے! اسے ہر اک بچہ
ہر کلی نے جھکا دی شاخ اپنی
پھول اور کانٹےپھولوں کی سمت جائے گی ، کانٹوں کی رہگزر
گر پھول ہیں عزیز تو ، کانٹوں پہ کر بسر
پھول اور کانٹےخوں ٹپکتا ہے لالہ و گل سے
اس سے بہتر خزاں کا موسم تھا
پھول اور کانٹےہم لگا لیتے ہیں ، کانٹوں کو بھی دل سے اپنے
لوگ بےرحم ہیں ، پھولوں کو بھی مسل دیتے ہیں
پھول اور کانٹےغم و خوشی میں ہمیشہ ، خدا جو یاد رہے
تو گھر کے کانٹوں میں بھی انسان دل سے شاد رہے
پھول اور کانٹےنفرت کی لو چلی تو ، چمن بھی جھلس گیا
بدلے کی بھاؤنا سے ، وطن بھی جھلس گیا
پھول اور کانٹےنازکی تو مرے محبوب کی دیکھے کوئی
گل کو چھوتے ہی پڑے ، ہاتھ میں چھالے ان کے
پھول اور کانٹےمدتوں میں نے لگایا تھا ، جنہیں سینہ سے
آج وہ خار کی مانند ، چبھے جاتے ہیں
پھول اور کانٹےیارو دل کیا اجڑ گیا میرا
ایک بستی اجڑ گئی میری
پھول اور کانٹےحرم ہو ، دیر ہو یا مےکدہ ، اس سے غرض کیا ہے
جہاں دیکھا ترا جلوہ ، وہیں میں نے جبیں رکھ دی
دیر و حرم (مندر-مسجد)میں انساں ہوں ، مجھے انسانیت سے پیار ہے لوگو
فقط دیر و حرم کی پاسبانی میں نہیں کرتا
دیر و حرم (مندر-مسجد)شیخ نے آتے ہی بزمِ مے کو برہم کر دیا
اچھی خاصی میری جنت کو جہنم کر دیا
جنت و جہنممےپرستوں کی ساقی گری کے لئے
شیخ صاحب جہنم میں ڈالے گئے
جنت و جہنمبیٹھ جاتی ہے وہیں ، ریت کی مانند اشوکؔ
جب بھی دیوار کوئی ، عزم سے ٹکراتی ہے
در-دیوار-آستاںآنکھیں کھلیں تو خواب کے ، منظر بکھر گئے
دیوار و در پہ دھوپ کا ، پہرہ ملا مجھے
در-دیوار-آستاںحرم ہو ، دیر ہو یا میکدہ ، اس سے غرض کیا ہے
جہاں دیکھا ترا جلوہ ، وہیں میں نے جبیں رکھ دی
سجدہ و جبیں (نماز ، پیشانی)حضرت! حیات جہدِ مسلسل کا نام ہے
آئے عمل کا وقت تو سجدہ حرام ہے
سجدہ و جبیں (نماز ، پیشانی)حسن کی جلوہ نمائی باعثِ آزار ہے
ایسا لگتا ہے کہ دنیا حسن کا بازار ہے
دنیا-کائنات-جہاںموت کا غم نہ اب حیات کا غم
میرے دل میں ہے کائنات کا غم
دنیا-کائنات-جہاںمجھ سے اس بات پہ ناراض ہے دنیا ساری
میں نے کیوں کر کسی مظلوم کی غمخواری کی
دنیا-کائنات-جہاںمہکنے لگے جس سے دنیا کا گلشن
خدا سے وہ امن و سکوں مانگتا ہوں
دنیا-کائنات-جہاںجیتے جی پھیر لیں اس نے بھی نگاہیں اپنی
اس سے بڑھ کر بھی ، کوئی اور قیامت ہوگی؟
حشر-محشر-قیامتیہ قیامت سے بڑی چیز ہے ، پہچان گیا
ایک انگڑائی میں بس شیخ کا ، ایمان گیا
حشر-محشر-قیامتگر ہو سکے تو بخش دو غیروں کی ہر خطا
لیکن نہ کرنا اپنی خطاؤں سے درگزر
گناہ-گنہ گار-بےگناہنہ ہو ڈر تو گناہوں کا مزہ کیا
کہ پھل چوری کا لگتا ہے بہت میٹھا
گناہ-گنہ گار-بےگناہکیا لذت گناہ سے واقف نہیں ہے شیخ
فطرت میں ہے گناہ ، تو انسان کیا کرے
گناہ-گنہ گار-بےگناہتوبہ نے اور مے کا ، طلبگار کر دیا
کالی گھٹا نے مجھ کو ، گنہ گار کر دیا
گناہ-گنہ گار-بےگناہتر بہ تر ہے شیخ کا دامن ، برہمن کا کمنڈل بھی
اس پہ بھی کرتے ہیں ، رندوں سے وہ دعویٰ پارسائی کا
گناہ-گنہ گار-بےگناہآہٹ سے کہیں توٹے نہ تنہائی کا عالم
چپکے سے تصور میں ، مرے پاس چلا آ
تنہائی-خلوتہے مرے لب پہ تبسم رقصاں
یہ الگ بات ہے کہ دل روتا ہے
لب-رخسار-عارض-بوسہآتشِ رخسار و لب کیا پوچھتے ہو اے اشوک
اس کی حدت سے جہنم کو پسینہ آ گیا
لب-رخسار-عارض-بوسہدھوکا اس سے کھا گیا میں ، اس لئے اے ساہنیؔ
اس نے رخ پہ ڈال رکھا تھا ، نقابِ دوستی
نقاب-حجاب-پردہہے ازل سے بےحجابی عشق کے دستور میں
شرم کیسی ، کیسا پردہ عاشقِ دلگیر سے
نقاب-حجاب-پردہکس قدر توبہ شکن یہ تری انگڑائی ہے
اک قیامت ترے جوبن پہ اتر آئی ہے
انگڑائییہ قیامت سے بڑی چیز ہے پہچان گیا
ایک انگڑائی میں بس شیخ کا ایمان گیا
انگڑائیہو گیا شہر کھنڈر ، خانۂ دل کی مانند
زلزلہ ہے کہ ، کسی شوخ کی انگڑائی ہے
انگڑائیآنے کو وعدہ کر گئے ، آئے نہ پر ابھی
دورِ شباب ڈھل گیا ، پیری گزر چلی
شباب و پیریبھولی بسری سی کہانی کا مزہ لیتے ہیں
اب تصور میں جوانی کا مزہ لیتے ہیں
شباب و پیریزمانہ نے لگائیں ہم پہ ، لاکھوں بندشیں لیکن
سرِ محفل مری نظروں نے تم سے گفتگو کر لی
نگاہ-نظر-چشمشاید ترے کلام سے ملتا نہ یہ سکوں
مجھ کو تری نگاہ نے خوشحال کر دیا
نگاہ-نظر-چشمتیرے لئے جو خاک ہے ، میرے لئے وہ زر
دنیا میں کام کرتی ہے ، اپنی بھی کچھ نظر
نگاہ-نظر-چشممیکدہ میں نظر آتے ہیں سبھی جام بہ دست
مجھ کو آنکھوں سے پلاؤ ، تو کوئی بات بنے
نگاہ-نظر-چشموعدہ پہ اپنے خواب میں آتے تو وہ ضرور
مجھ کو ہی نیند آئے نہ ، تو ان کا ہے کیا قصور
وعدہ-تغافلآنے کا وعدہ کر گئے ، آئے نہ پر ابھی
دورِ شباب ڈھل گیا ، پیری گزر چلی
وعدہ-تغافلوہ روٹھ گیا مجھ سے کہ دل روٹھ گیا ہے
اب دل میں کسی بات ارمان نہیں ہے
حسرت و ارماںخواب بن جاؤ تم اگر میرا
میں آنکھیں عمر بھر نہ کھولوں
حسرت و ارماںوائے حسرت! اب کوئی حسرت نہیں
دل ہے مدفن ، حسرتِ ناکام کا
حسرت و ارماںرخِ روشن میں ترا دیکھ کے جی اٹھتا ہوں
مجھ کو آتا نہیں پروانے کی صورت جلنا
شمع و پروانہتیرگی بڑھنے لگی اپنی حدوں سے آگے
مشعلیں دن میں جلاؤ تو کوئی بات بنے
شمع و پروانہچاہے ہر سو ہو مسلط ، شبِ ظلمت پھر بھی
ہم کو کرنی ہے اجالوں کی حفاظت پھر بھی
شمع و پروانہعمر بھر شمع کی مانند جلایا دل کو
پھر بھی دنیا کو شکایت ہے اجالا کم ہے
شمع و پروانہسرخرو پروانہ ٹھہرا ، امتحانِ عشق میں
شمع بھی یوں تو جلی ، لیکن دکھاوے کے لئے
شمع و پروانہبھیس کوئی بھی بدل سکتا ہے دیوانوں سا
حوصلہ چاہئے پر عشق میں پروانوں سا
شمع و پروانہباغباں تو ہی بتا کس نے اسے پھونک دیا
آشیاں میں نے بنایا تھا ، بڑی محنت سے
برق و نشیمنبجلیاں کوند رہی ہیں کہ تکلم تیرا
برق نے قید میں رکھا ہے تبسم تیرا
برق و نشیمناس کی جفائیں مجھ کو ، وفاؤں سے کم نہیں
اس کی خوشی میں خوش ہوں ، مجھے کوئی غم نہیں
ہنسی-خوشی-مسرتغم کا ہر دم بیاں نہیں اچھا
اپنی خوشیاں شمار کر پہلے
ہنسی-خوشی-مسرتوہ خوشیاں ہوں کہ غم ، تجھ کو سدا ہم یاد رکھتے ہیں
عمارت دل کی یادوں سے تری ، آباد رکھتے ہیں
ہنسی-خوشی-مسرتاس کی آمد سے مرے گھر میں بہار آتی ہے
وہ جو چاہے تو مرے گھر کو بھی ویرانہ بنا دے
آشیاں-آشیانہکیا کسی کی آنکھ میں پانی نہیں تھا اے اشوک!
سب کھڑے تھے ہاتھ باندھے آشیاں جلتا رہا
آشیاں-آشیانہباغباں تو ہی بتا کس نے اسے پھونک دیا
آشیاں میں نے بنایا تھا بڑی محنت سے
آشیاں-آشیانہبن جاؤ گر تم خواب میرا
میں آنکھیں عمر بھر نہ کھولوں
نیند-خوابسو کر اٹھے تو خواب کے منظر بکھر گئے
دیوار و در پہ دھوپ کا پہرا ملا مجھے
نیند-خوابسامنے وہ آئینہ کے کیا سمجھ کر آ گئے
بےخودی میں آئینہ سے آئینہ ٹکرا گئے
آئینہ-شیشہاس کو غرورِ حسن نے کیا کیا بنا دیا
پتھر بنا دیا کبھی شیشہ بنا دیا
آئینہ-شیشہمجھ سے اس بات پہ ناراض ہے دنیا ساری
میں نے کیوں کر کسی مظلوم کی غمخواری کی
زمانہمانگیں بنا ملی ہیں زمانے کی نعمتیں
اب سوچتا ہوں مانگوں میں اپنے خدا سے کیا
زمانہہوش و ہواس یاد میں اس کی گنوا دئے
اب امتیازِ شام و سحر بھی نہیں مجھے
جنون-دیوانگیکوئی دیکھے تو مری دیوانگی
رکھ دیا اس کے مقابل ، آئینہ
جنون-دیوانگیسنتا نہیں ہے کوئی یہاں ، مفلسوں کی بات
ہر شخص میرے شہر میں مصروفِ زر لگے
دکھ-دردسمسّیا اور دکھ میں فرق بس اتنا سمجھ لیجئے
سمسّیا جائے گی یکتی سے ، دکھ صبر و تحمل سے
دکھ-دردجھوٹا وعدہ ہی سہی دل کی تسلی کے لئے
آسرا طور کا ہے اس کی تجلی کے لئے
آسرا-سہارادریائے محبت میں اک ڈوبنے والے کو
ہوتا ہے بہت یارو ، تنکے کا سہارا بھی
آسرا-سہارااب موت سے بھی ساہنیؔ ڈرتے نہیں ہیں ہم
جب سے غمِ حیات کو اپنا بنا لیا
موت-ازل-قضاموت کا غم نہ اب حیات کا غم
میرے دل میں ہے کائنات کا غم
موت-ازل-قضامیں کروں شکوہ سکایت کس سے
مجھ کو میری حیات نے مارا
موت-ازل-قضاموت بھی کیا ، ڈرائے گی ہم کو
موت میں بھی حیات پنہاں ہے
موت-ازل-قضااس نیلے آسماں سے تو مایوس ہو گئے ہم
مٹی کے آسماں سے چل قبر ہی سجا لیں
گور-و-کفن-قبر-تربتوائے حسرت! اب کوئی ، حسرت نہیں
دل ہے مدفن ، حسرتِ ناکام کا
گور-و-کفن-قبر-تربتوہ خوشیاں ہوں کہ غم تجھ کو سدا ہم یاد رکھتے ہیں
عمارت دل کی یادوں سے تری آباد رکھتے ہیں
دلیارو! دل کیا اجڑ گیا میرا
ایک بستی اجڑ گئی میری
دلہائے اس کی وہ مدھ بھری آنکھیں
ڈوب جانے کو دل مچلتا ہے
دلجا رہے ہو گر ، نگاہیں پھیر کر
یہ شکستہ دل بھی لیتے جائیے
دلوائے حسرت! اب کوئی حسرت نہیں
دل ہے مدفن حسرتِ ناکام کا
دلغم و خوشی میں ہمیشہ خدا جو یاد رہے
تو گھر کے کانٹوں میں انسان دل سے شاد رہے
دلہم لگا لیتے ہیں ، کانٹوں کو بھی دل سے اپنے
لوگ بےرحم ہیں پھولوں کو مسل دیتے ہیں
دلیاد بھی ان کی مجھ سے ، بہت دور ہے
میں بھی مجبور ہوں ، دل بھی مجبور ہے
دلتجھ کو پانے کی تمنا دل ہی دل میں رہ گئی
سوچتا ہوں زندگی یہ وار کیسے سہہ گئی
دلاس کی آمد سے مرے گھر میں بہار آتی ہے
وہ جو چاہے تو مرے گھر کو بھی ویرانہ بنا دے
صحرا-ویرانہ-بیاباںہر خوشی تیرے بنا ، خار کی مانند چبھے
تو جو مل جائے تو صحرا کو بھی گلشن کر دوں
صحرا-ویرانہ-بیاباںمیری دعائیں ہو نہ سکیں اس لئے قبول
شاید وہ ان دعاؤں کا حقدار ہی نہ تھا
دعا-دوا-شفایا خدا میری دعاؤں میں اثر پیدا کر
حد سے بڑھ جائے اندھیرا تو سحر پیدا کر
دعا-دوا-شفااس کی آمد سے مرے ، گھر میں آتی ہے بہار
وہ جو چاہے تو مرے گھر کو بھی ، ویرانہ بنا دے
بہار-و-خزاںخوں ٹپکتا ہے ،لالہ و گل سے
اس سے بہتر ، خزاں کا موسم تھا
بہار-و-خزاںیاد بھی ان کی ، مجھ سے بہت دور ہے
میں بھی مجبور ہوں ، دل بھی مجبور ہے
یاداتنا غمِ حیات نے مایوس کر دیا
اب تو تمہاری یاد بھی آتی نہیں مجھے
یادوہ خوشیاں ہوں کہ غم ، تجھ کو سدا ہم یاد رکھتے ہیں
عمارت دل کی یادوں سے تری ، آباد رکھتے ہیں
یادہوش و ہواس یاد میں ، ان کی گنوا دئے
اب امتیازِ شام و سحر بھی نہیں مجھے
یادغم و خوشی میں ہمیشہ خدا جو یاد رہے
تو گھر کے کانٹوں میں بھی انسان دل سے شاد رہے
یادجب تصور میں بھی تم مرے ساتھ ہو
میری خلوت میں آؤ ، تو کیا بات ہو!
تصور-خیالزندگانی ہے ہجر کی ساعت
عمر بھر جانکنی میں گزری ہے
ہجر-و-وصالراس آئیں نہ وصل کی گھڑیاں
ان کے آتے ہی ہم کو موت آئی
ہجر-و-وصالکٹ تو جائے گی یہ شبِ ہجراں
وہ نہ آئے تو زیست بھی شب ہے
ہجر-و-وصالوفا کرو نہ کرو مجھ سے یہ سکوں تو ہے
کہ تم کسی کے لئے بھی ہو ، باوفا تو ہو
وفا-جفااس کی جفائیں مجھ کو وفاؤں سے کم نہیں
اس کی خوشی میں خوش ہوں ، مجھے کوئی غم نہیں
وفا-جفاتمام عمر نہ آیا وہ بےوفا لیکن
تمام عمر مجھے اس کا انتطار رہا
وفا-جفابےخودی میں کہہ دیا اس کو خدا
اس کا کفارہ ، بہت مہنگا پڑا
خودی-بےخودیدفعتاً وہ آئینہ کے سامنے کیا آ گئے
بےخودی میں آئینہ سے آئینہ ٹکرا گئے
خودی-بےخودیمےکدہ میں نظر آتے ہیں سبھی جام بہ دست
مجھ کو آنکھوں سے پلاؤ تو کوئی بات بنے
آنکھمجھ کو یہ دنیا حسیں لگنے لگی
تیری آنکھیں مجھ پہ جادو کر گئیں
آنکھتصویر سی کھنچ جاتی ہے بند کرتے ہی آنکھیں
مجھ سا بھی مصور کوئی دنیا میں ہوا کیا
آنکھاف! ترے حسن کا اندازِ نزاکت توبہ
اک قیامت ہے ، قیامت ہے ، قیامت توبہ
ناز-انداز-نزاکت-ادانازکی تو مرے محبوب کی دیکھے کوئی
گل کو چھوتے ہی پڑے ، ہاتھ میں چھالے ان کے
ناز-انداز-نزاکت-ادااس کی رفتار کا انداز ، الٰہی توبہ
اک قیامت سی مرے دل پہ گزر جاتی ہے
ناز-انداز-نزاکت-اداوہ جو آئے گلستاں میں ناز سے
شاخِ گل بھی شرم سے دوہری ہوئی
ناز-انداز-نزاکت-ادادوستوں کا ہائے اندازِ خلوص
دشمنی بھی دل پکڑ کر رہ گئی
ناز-انداز-نزاکت-ادااپنے شانوں پہ سر سلامت رکھ
اب سہاروں کا انتظار نہ کر
انتظار-منتظراس کے آنے کا انتظار ہے مجھ کو
بعد مرنے کے منہ مرا کھلا رکھنا
انتظار-منتظراٹھ اٹھ کے دیکھتا ہوں شبِ ہجر میں اشوکؔ
یہ انتظار اس کا قیامت سے کم نہیں
انتظار-منتظرتمام عمر نہ آیا وہ بےوفا لیکن
تمام عمر مجھے اس کا انتظار رہا
انتظار-منتظرحرم ہو دیر ہو یا میکدہ ، اس سے غرض کیا ہے
جہاں دیکھا ترا جلوہ وہیں میں نے جبیں رکھ دی
کعبہ-بت-بت کدہ-بت خانہمیں انساں ہوں ، مجھے انسانیت سے پیار ہے یارو
فقط دیر و حرم کی پاسبانی میں نہیں کرتا
کعبہ-بت-بت کدہ-بت خانہبت پرستی کسے کہتے ہیں بتا مجھ کو اشوکؔ
سجدہ ہوتا ہے مزارات پہ جائز کیسے
کعبہ-بت-بت کدہ-بت خانہنازکی تو مرے محبوب کی دیکھے کوئی
گل کو چھوتے ہی پڑے ہاتھ میں چھالے اس کے
کعبہ-بت-بت کدہ-بت خانہکیا ضروری ہے کہ الفاظ میں اظہار کروں
مجھ کو آنکھوں سے بھی آتا ہے شکایت کرنا
گلہ-شکوہمرے شکووں سے ، نالوں سے مرا صیاد ڈرتا ہے
زباں بندی کی خاطر وہ زباں بھی کاٹ دیتا ہے
گلہ-شکوہعشق کا اظہار آساں ہے اشوکؔ
عشق کا پیشہ بہت دشوار ہے
حسن و عشقحسن کی جلوہ نمائی باعثِ آزار ہے
ایسا لگتا ہے کہ دنیا حسن کا بازار ہے
حسن و عشقکب سیہ بختی میں ہوتا ہے کسی کا کوئی
عالمِ نزع میں پھر جاتی ہیں آنکھیں اپنی
وقتاس دورِ بےضمیر پہ کیا گزرا حادثہ
لگتا ہے میرے عہد کا انسان مر گیا
حادثہ-حوادث-حادثات-حالاتمجھ سے اس بات پہ ناراض ہے دنیا ساری
میں نے کیوں کر کسی مظلوم کی غمخواری کی
غمگسار-غمخوارعید و دیوالی منانے سے کہیں بہتر ہے
ہم کسی مفلس و نادار کے ہمدم ہوتے
غمگسار-غمخوارشیخ مے کو حرام کہتے رہے
میں نے پی کر حلال بھی کر لی
شیخ و برہمنواعظ جی کو شب کیا سوجھی رندوں کو سمجھانے آئے
صبح کو سارے میکش ان کو مسجد تک پہنچانے آئے
شیخ و برہمناس نیلے آسماں سے مایوس ہو گئے ہم
مٹی کے آسماں سے چل قبر ہی سجا لیں
زمیں-آسماں-فلک-عرشچاہے ہر سو ہو مسلط شبِ ظلمت پھر بھی
ہم کو کرنی ہے اجالوں کی حفاظت پھر بھی
امید-توقع-آسہم کو ہر غم دیا ہے اپنوں نے
ہم کو اپنوں سے کچھ امید نہیں
امید-توقع-آسمرنے کے بعد کس سے توقع رکھیں اشوکؔ
جب میری زندگی نے بھی مجھ سے وفا نہ کی
امید-توقع-آساگر ظلم چپ چاپ سہتے رہیں گے
مظالم بھی ظالم کے بڑھتے رہیں گے
ظلم و ستم - رحم و کرماچھی نصیحتیں اگر اولاد کو ملیں
جھگڑے یہ دھرم و ایماں کے پیدا کبھی نہ ہوں
کفر-ایمان-کافرمنافق دوستوں کے درمیاں جینا قیامت ہے
خدا کا شکر ہے لیکن مرا ، ایماں سلامت ہے
کفر-ایمان-کافرایک مدت میں حقیقت یہ کھلی
دوستی کی انتہا ہے دشمنی
عدو-رقیب-دشمنعدو پر اس قدر ، احسان پر ، احسان کرتا جا
کہ دشمن دوستی کرنے پر خود مجبور ہو جائے
عدو-رقیب-دشمنہم نے مانا ہر طرف تیرہ شبی کا راج ہے
آپ سورج ہیں اگر تو روشنی پھیلائیے
تیرگی-تاریکی-ظلمتچاہے ہر سو ہو مسلط شبِ ظلمت پھر بھی
ہم کو کرنی ہے اجالوں کی حفاظت پھر بھی
تیرگی-تاریکی-ظلمتمے پرستوں کی ساقی گری کے لئے
شیخ صاحب جہنم میں ڈالے گئے
مے-شراب-میناشیخ مے کو حرام کہتے رہے
میں نے پی کر حلال بھی کر لی
مے-شراب-مینامے کدہ میں نظر آتے ہیں سبھی جام بہ دست
مجھ کو آنکھوں سے پلاؤ تو کوئی بات بنے
ساقیمجھ کو اتنی پلا دے اے ساقی
توبہ کرنی محال ہو جائے
ساقیدیکھ پھر موسموں نے چھلکائی
مجھ کو توبہ کبھی نہ راس آئی
توبہمجھ کو اتنی پلا دے اے ساقی!
توبہ کرنی محال ہو جائے
توبہیہ قیامت سے بڑی چیز ہے پہچان گیا
ایک انگڑائی میں بس شیخ کا ایمان گیا
واعظ-زاہد-ناصح-شیختر بہ تر ہے شیخ کا دامن ، لبالب ہے برہمن کا کمنڈل بھی
اس پہ بھی کرتے ہیں رندوں سے ، وہ دعویٰ پارسائی کا
واعظ-زاہد-ناصح-شیخشیخ صاحب ادھر تو مسجد ہے
مےکدہ سے حیات بنٹتی ہے
واعظ-زاہد-ناصح-شیخاتنا کہاں تھا ہوش کہ مسجد سدھارتے
واعظ نے مےکدہ میں مصلّیٰ بچھا لیا
واعظ-زاہد-ناصح-شیخبس یہ احساس کہ تو میرا ہے
مجھ کو ہر لمحہ سکوں دیتا ہے
احساسکیا لذتِ گناہ سے واقف نہیں ہے شیخ
فطرت میں ہے گناہ تو انسان کیا کرے
فطرت-عادتخو ہے خاروں کی ، خار کھانے کی
گل کی عادت ہے مسکرانے کی
فطرت-عادتنفرت کی لو چلی تو ، چمن بھی جھلس گیا
بدلہ کی بھاؤنا سے وطن بھی جھلس گیا
فرقہ پرستی-تعصب-نفرتکتنے سکوں سے کاٹ دی پرکھوں نے زندگی
جو مل گیا نصیب سے چپ چاپ کھا لیا
میرے پسندیدہ اشعارزاہد شراب پینے دے مسجد میں بیٹھ کر
یا وہ جگہ بتا دے جہاں پر خدا نہ ہو
میرے پسندیدہ اشعارکافر کے دل سے آیا ہوں یہ دیکھ کر اشوکؔ
اس میں خدا تو ہے مگر اس کو پتا نہیں
میرے پسندیدہ اشعارسب کا مالک ایک ہے یارو چاہے سو ہوں نام
دیوالی میں علی ملے گا محرم میں رام
میرے پسندیدہ اشعارسر کو جھکا کے جینے سے ، بہتر ہے خودکشی
جینا ہے زندگی میں تو ، سر کو اٹھا کے جی
زندگی-زیست-حیاتزندگی غم سے سنورتی ہے ، نہ گھبرا اے دوست!
حد سے بڑھ جائے اندھیرا ، تو سحر ہوتی ہے
زندگی-زیست-حیاتاتنا غمِ حیات نے مایوس کر دیا
اب تو تمہاری یاد بھی آتی نہیں مجھے
زندگی-زیست-حیاتآتے نہیں ہیں تنگ کبھی زندگی سے ہم
نزدیک غم کو رکھتے ہیں اپنی خوشی سے ہم
زندگی-زیست-حیاتغم سے ناطہ توڑ کر ، اے دل سدا پچھتائے گا
غم رفیقِ زندگی ہے ، ساتھ تیرے جائے گا
زندگی-زیست-حیاتموت بھی کیا ڈرائے گی ہم کو
موت میں بھی حیات پنہاں ہے
زندگی-زیست-حیاتاب موت سے بھی ساہنیؔ ڈرتے نہیں ہیں ہم
جب سے غمِ حیات کو اپنا بنا لیا
زندگی-زیست-حیاتزندگی کا ایک رخ سچا لگا
مجھ کو تجھ سے ، تیرا غم اچھا لگا
زندگی-زیست-حیاتتجھ کو پانے کی تمنا ، دل ہی دل میں رہ گئی
سوچتا ہوں زندگی یہ وار کیسے سہہ گئی
زندگی-زیست-حیاتموت کا غم ، نہ اب حیات کا غم
میرے دل میں ہے ، کائنات کا غم
زندگی-زیست-حیاتمہکنے لگے جس سے ، دنیا کا گلشن
خدا سے وہ ، امن و سکوں مانگتا ہوں
خدا -ناخدابھروسہ ناخداؤں پر جو کرتے ہیں سمندر میں
بساوقات ان کے ہی سفینے ڈوب جاتے ہیں
خدا -ناخداغم و خوشی میں ہمیشہ خدا جو یاد رہے
تو گھر کے کانٹوں میں بھی ، انسان دل سے شاد رہے
خدا -ناخدابخشیں خدا نے جس کو زمانے کی نعمتیں
وہ خوش نہ رہ سکے ، تو کوئی اس کا کیا کرے
خدا -ناخداکس زباں سے شکر میں تیرا کروں
شیخ بھی بت کو خدا کہنے لگے
خدا -ناخدابھروسہ ناخداؤں کا ، مری کشتی کو لے ڈوبا
اگر طوفاں سے لڑ جاتے ، تو بیڑا پار ہو جاتا
خدا -ناخدااپنوں نے اس قدر ہمیں مایوس کر دیا
شکوہ کسی سے اب نہیں میرے خدا مجھے
خدا -ناخدامانگے بنا ملی ہیں زمانہ کی نعمتیں
اب سوچتا ہوں مانگوں میں اپنے خدا سے کیا
خدا -ناخداخلوصِ دل سے کر محنت ، خود اپنے ہی بھروسہ جی
خدا کو یاد رکھ ، منزل تجھے خود ہی پکارے گی
خدا -ناخداپہلے منزل کا تعین کیجئے
راستہ تو خود بہ خود مل جائے گا
منزل-کارواں-قافلہآج کے انساں بھی یاروں ، کس قدر معصوم ہیں
چابیوں سے چل رہے ہیں ، منزلیں معدوم ہیں
منزل-کارواں-قافلہاب مرے شہر کے ظالم ہیں اسی کوشش میں
ظلم سہتا رہوں ، فریاد نہ کرنے پاؤں
آہ-فغاں-فریادآہ مظلوموں کی مت لے اے اشوکؔ
تیری ہستی کو مٹا سکتی ہے یہ
آہ-فغاں-فریادتجھ کو پانے کی تمنا دل ہی دل میں رہ گئی
سوچتا ہوں زندگی ، یہ وار کیسے سہہ گئی
تمنا-آرزو-خواہشمجھے تیری تمنا ہر گھڑی بےچین رکھتی ہے
لحد میں بھی مجھے ، لگتا ہے تیری یاد آئے گی
تمنا-آرزو-خواہشعالمِ نزع میں جاگی یہ تمنا دل میں
اک نظر دیکھ تو لوں میں اسے چلتے چلتے
تمنا-آرزو-خواہشآرزوئیں سب ادھوری رہ گئیں
موت نے ہم کو مکمل کر دیا
تمنا-آرزو-خواہشبس یہ احساس کہ تو میرا ہے
مجھ کو ہر لمحہ سکوں دیتا ہے
تسلی-تسکین-سکونچاہتا ہے تو اگر دل سے سکونِ دائمی
اپنے دشمن کی بجائے دشمنی کو ختم کر
تسلی-تسکین-سکونحرم ہو ، دیر ہو ، یا مےکدہ ، اس سے غرض کیا ہے
جہاں دیکھا ترا جلوہ ، وہیں میں نے جبیں رکھ دی
مےکدہ-مےخانہشیخ صاحب! ادھر تو ہے مسجد
میکدہ میں حیات بنٹتی ہے
مےکدہ-مےخانہعید و دیوالی منانے سے کہیں بہتر ہے
ہم کسی مفلس و نادار کے ہم دم ہوتے
غریب-مفلس-افلاسمفلسی نے جان پر چرکے لگائے اس قدر
مفلسی شرما رہی ہے مفلسی کے نام پر
غریب-مفلس-افلاستصویر سی کھنچ جاتی ہے بند کرتے ہی آنکھیں
مجھ سا بھی مصور کوئی دنیا میں ہوا کیا
آنکھ-چشمتیری تصویر بناتی تو تھی آنکھوں میں
بہہ کے اشکوں نے مٹا دی ہوگی
آنکھ-چشمتجھ سے آنکھیں جو ہوئیں چار ، تجھے کیا معلوم
چل گیا دل پہ مرے وار ، تجھے کیا معلوم
آنکھ-چشمہائے اس کی وہ مدھ بھری آنکھیں
ڈوب جانے کو دل مچلتا ہے
آنکھ-چشممیں عبادت سمجھ کے ، پیتا تھا
توبہ کرکے ، گناہ کر بیٹھا
عبادت-بندگیحرم ہو ، دیر ہو یا میکدہ اس سے غرض کیا ہے
جہاں دیکھا ترا جلوہ وہیں میں نے جبیں رکھ دی
عبادت-بندگیشیخ صاحب ادھر تو مسجد ہے
میکدہ میں حیات بنٹتی ہے
عبادت-بندگیپہلے منزل کا تعین کیجئے
راستہ تو خود بہ خود مل جائے گا
اشعار حقیقی