انسانیت کی بات تو اتنی ہے شیخ جی
بدقسمتی سے آپ بھی انسان بن گئے
انسان-انسانیت-بشرشاید مجھے نکال کر ، پچھتا رہے ہوں آپ
محفل میں اس خیال سے ، پھر آ گیا ہوں میں
بزم-محفل-انجمنآئے بھی لوگ ، بیٹھے بھی ، اٹھ کر چلے گئے
میں جا ہی ڈھونڈھتا ، تری محفل میں رہ گیا
بزم-محفل-انجمنبڑے نادان تھے ، وہ چند آنسو
جو اتنی سادگی سے ، بہہ گئے ہیں
اشک-آنسودل ابھی پوری طرح ٹوٹا نہیں
دوستوں کی مہربانی چاہئے
دوست دشمنجس کو کہتے ہیں ، دوستوں کا خلوص
وہ ستم ، بےحساب دیکھے ہیں
دوست دشمنذرا اک تبسم کی ، تکلیف کرنا
کہ گلزار میں ، پھول مرجھا رہے ہیں
پھول اور کانٹےشبنم کی ایک بوند تھی ، پھولوں کی کائنات
وہ بھی نہ بچ سکی ، ہوسِ آفتاب سے
پھول اور کانٹےکتنے عروج پہ بھی ہو ، موسم بہار کا
ہے پھول بس وہی ، جو سرِ زلفِ یار ہو
پھول اور کانٹےدیکھ کر چنئے گا ، گل ہائے مراد
تاک میں ہوتے ہیں ، اکثر خار بھی
پھول اور کانٹےبہت مشکل ہے دنیا کا سنورنا
تری زلفوں کا پیچ و خم نہیں ہے
دنیا-کائنات-جہاںمحسوس یہ ہوا ترے دامن کو تھام کر
جیسے کہ ہاتھ میں نے دو عالم پہ رکھ دیا
دنیا-کائنات-جہاںکتنا موزوں گناہ کرتے ہیں
ہم تری سادگی پہ مرتے ہیں
گناہ-گنہ گار-بےگناہکون انگڑائی ، لے رہا ہے عدمؔ
دو جہاں لڑکھڑائے جاتے ہیں
انگڑائیدیکھا ہے کس نگاہ سے تو نے ، ستم ظریف
محسوس ہو رہا ہے میں ، غرقِ شراب ہوں
نگاہ-نظر-چشممرنے والے تو خیر ہیں بےبس
جینے والے کمال کرتے ہیں
موت-ازل-قضادل ابھی پوری طرح ٹوٹا نہیں
دوستوں کی مہربانی چاہئے
دلدلِ ناکام ہی تم نے دیا تھا
دلِ ناکام لے کر جی رہے ہیں
دلدل کے معاملات میں ، سود و زیاں کی بات
ایسے ہیں جیسے موسم گل میں ، خزاں کی بات
بہار-و-خزاںوہ چشمِ مست کتنی ، خبردار تھی عدمؔ
خود ہوش میں رہی ، ہمیں بدنام کر دیا
آنکھتیری آنکھیں بھی مانگتی ہیں شراب
میکدے خود بھی جام پیتے ہیں
آنکھخیال ہی نہیں آیا نہ آنے کا ترے
کچھ اس خلوص سے ہم محوِ انتظار رہے
انتظار-منتظرجنابِ شیخ یہ کیا ماجرا ہوا آخر
سنا ہے آپ کو کعبہ میں بھی ، خدا نہ ملا
کعبہ-بت-بت کدہ-بت خانہہم تو راضی نہیں تھے مرنے پر
غمگساروں نے مار ڈالا ہے
غمگسار-غمخوارانسانیت کی بات تو اتنی ہے شیخ جی!
بدقسمتی سے آپ بھی انسان بن گئے
شیخ و برہمنزبانِ ہوش سے یہ کفر سرزد ہو نہیں سکتا
میں کیسے بن پیے لے لوں ، خدا کا نام ہے ساقی
ساقیغرورِ مے کشی کی ، کون سی ، منزل ہے یہ ساقی
کھنک ساغر کی ، آوازِ خدا معلوم ہوتی ہے
ساقیتیری آنکھیں بھی مانگتی ہیں شراب
میکدے خود بھی جام پیتے ہیں
میرے پسندیدہ اشعارطلوعِ حشر کا کیا اعتبار ہے پیارے
دراز ہو تو شبِ انتظار ہے پیارے
میرے پسندیدہ اشعاراس سے بڑھ کر دوست کوئی دوسرا ہوتا نہیں
سب جدا ہو جائیں لیکن غم جدا ہوتا نہیں
میرے پسندیدہ اشعارہے قیامت بھی ایک شے لیکن
تیری انگڑائی جیت جائے گی
میرے پسندیدہ اشعارگئے ہیں ہم بھی گلستاں میں بارہا لیکن
کبھی خزاں سے پہلے کبھی بہار کے بعد
میرے پسندیدہ اشعارمنجدھار تک پہنچنا تو ہمت کی بات تھی
ساحل کے آس پاس ہی طوفان بن گئے
میرے پسندیدہ اشعاراے ناخدا! سفینہ کا اب کوئی غم نہ کر
ہم فرض کر چکے ہیں کہ ساحل نہیں رہا
میرے پسندیدہ اشعارمرنے والے تو خیر بے بس ہیں
جینے والے ، کمال کرتے ہیں
زندگی-زیست-حیاتگناہِ زندگی کرنے کی خاطر
بسا اوقات مر جانا پڑا ہے
زندگی-زیست-حیاتآ جاؤ اور بھی ، ذرا نزدیک جانِ من!
تم کو قریب پا کے ، بہت خوش ہے زندگی
زندگی-زیست-حیاتدل خوش ہوا ہے مسجدِ ویراں کو دیکھ کر
میری طرح خدا کا بھی خانہ خراب ہے
خدا -ناخداہر موج ناخدا بنی ، بےچارگی کے بعد
کشتی کے ڈوبتے ہی ، سہارے نکل پڑے
خدا -ناخدازبانِ ہوش سے یہ کفر ، سرزد ہو نہیں سکتا
میں کیسے بن پئے لے لوں ، خدا کا نام ہیں ساقی
خدا -ناخداجس دن یہ ہاتھ پھیلے ، اہلِ کرم کے آگے
اے کاش اس سے پہلے ہم کو خدا اٹھا لے
خدا -ناخداکیسی مہلک خطا ہوئی ہم سے
ناؤ میں ناخدا سے لڑ بیٹھے
خدا -ناخداصرف اک قدم اٹھا تھا ، غلط راہِ شوق میں
منزل تمام عمر ، مجھے ڈھونڈھتی رہی
منزل-کارواں-قافلہذکر کرتے ہوئے ان آنکھوں کا
ہم چلے آئے میخانہ تک
آنکھ-چشمفضائے بندگی لاانتہا ، معلوم ہوتی ہے
کہ مجھ کو ہر حسیں صورت ، خدا معلوم ہوتی ہے
عبادت-بندگی