ہزاروں خضر پیدا کر چکی ہے ، نسل آدم کی
یہ سب تسلیم لیکن ، آدمی اب تک بھٹکتا رہا
انسان-انسانیت-بشرکس کو روتا ہے ، عمر بھر کوئی
آدمی جلد ، بھول جاتا ہے
انسان-انسانیت-بشرہو برا انسان کے افلاس کا
چھین لیتا ہے سبھی اچھائیاں
انسان-انسانیت-بشراس دور میں ، زندگی بشر کی
بیمار کی ، رات ہو گئی ہے
انسان-انسانیت-بشرہم سے کیا ہو سکا ، محبت میں
خیر تم نے تو ، بےوفائی کی
پیار-محبت-الفتتم اسے شکوہ سمجھ کر ، کس لئے شرما گئے
مدتوں کے بعد دیکھا تھا ، تو آنسو آ گئے
اشک-آنسوآنسو کو مرے کھیل ، تماشا نہ سمجھنا
پتھر بھی تو کٹ جاتا ہے ، ہیرے کی کنی سے
اشک-آنسووقتِ پیری دوستوں کی ، بےرخی کا کیا گلہ
بچ کے چلتے ہیں سبھی گرتی ہوئی دیوار سے
دوست دشمنکون روتا ہے ، کسی اور کی خاطر اے دوست!
سب کو اپنی ہی کسی بات پہ رونا آیا
دوست دشمنکیا بزمِ داستاں تھی ، ابھی کل کی بات ہے
معلوم ہو رہا ہے کہ ، صدیاں گزر گئیں
دوست دشمنکلی کوئی جہاں پر کھل رہی ہے
وہیں اک پھول بھی مرجھا رہا ہے
پھول اور کانٹےکہہ دیا تو نے جو معصوم ، تو ہم ہیں معصوم
کہہ دیا تو نے گنہ گار ، گنہ گار ہیں ہم
گناہ-گنہ گار-بےگناہکوئی افسانہ ، چھیڑ تنہائی
رات کٹتی نہیں ، جدائی کی
تنہائی-خلوتاب تو ان کی یاد بھی آتی نہیں
کتنی تنہا ہو گئیں تنہائیاں
تنہائی-خلوتمیں ہوں ، دل ہے ، تنہائی ہے
تم بھی ہوتے ، اچھا ہوتا
تنہائی-خلوتکون یہ لے رہا ہے انگڑائی
آسمانوں کو نیند آتی ہے
انگڑائیپستیوں نے جب بھی لیں انگڑائیاں
زلزلوں سے ہل اٹھیں اونچائیاں
انگڑائیمری تسبیح کے دانے ہیں ، یہ بھولی صورتوں والے
نگاہوں میں پھراتا ہوں ، عبادت ہو تی جاتی ہے
نگاہ-نظر-چشمحالانکہ ان کو دیکھ کے پلٹی ہی تھی نگاہ
محسوس یہ ہوا ، کہ زمانہ گزر گئے
نگاہ-نظر-چشمان نگاہوں نے تو کچھ کہا بھی نہیں
بات پہنچی ہے لیکن کہاں سے کہاں
نگاہ-نظر-چشملے اڑی تجھ کو نگاہِ شوق ، کیا جانے کہاں
تیری صورت پہ بھی اب ، تیرا گماں ہوتا نہیں
نگاہ-نظر-چشمنہ کوئی وعدہ ، نہ کوئی یقیں ، نہ کچھ امید
مگر ہمیں تو ، ترا انتظار کرنا تھا
وعدہ-تغافلہمیں بھی دیکھ جو اس درد سے ، کچھ ہوش میں آئے
ارے دیوانہ ہو جانا محبت میں تو آساں ہے
جنون-دیوانگیدرد ہی درد کی دوا بن جائے
زخم ہی زخمِ دل کا مرہم ہو
دکھ-دردذرہ ذرہ کانپ رہا ہے
کس کے دل میں درد اٹھا ہے
دکھ-دردموت کا بھی علاج ہو شاید
زندگی کا کوئی علاج نہیں
موت-ازل-قضازندگی ہی ، اجڑ گئی ، اے دل
ہم کہاں ، کس نگر میں ، جا کے بسیں
دلغرض کہ کاٹ دئے ، زندگی کے دن اے دوست!
وہ تری یاد میں ہوں یا تجھے بھلانے میں
یادتو یاد آیا ، ترے جور و ستم لیکن ، نہ یاد آئے
محبت میں یہ معصومی بڑی مشکل سے آتی ہے
یاددلِ غمگیں کی کچھ ، کیفیتیں ایسی بھی ہوتی ہیں
کہ ایسے میں تری یادوں کا آنا بھی کھٹکتا ہے
یاداب یادِ رفتگاں کی بھی ہمت نہیں رہی
یاروں نے کتنی دور بسائی ہیں بستیاں
یادطبیعت اپنی گھبراتی ہے جب سنسان راتوں میں
ہم ایسے میں تری یادوں کی چادر تان لیتے ہیں
یاداب آ گئے ہیں آپ تو ، آتا نہیں ہے یاد
ورنہ کچھ ہم کو آپ سے کہنا ضرور تھا
یاداک مدت سے تری یاد بھی آئی نہ ہمیں
اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی کہاں
یادمیں آج صرف محبت کے غم کروں گا یاد
یہ اور بات ہے تیری بھی یاد آ جائے
یادسامنے تیرے جیسے کوئی بات
یاد آ آ کے بھول جاتی ہے
یاداب تو ان کی یاد بھی آتی نہیں
کتنی تنہا ہو گئیں تنہائیاں
یاددلوں میں تیرے تبسم کی ، یاد یوں آئی
کہ جگمگا اٹھیں جس طرح ، مندروں میں چراغ
یادحیراں ہوئے نہ تھے جو ، تصور میں بھی کبھی
تصویر ہو گئے ، تری تصویر دیکھ کر
تصور-خیالترا وصال بڑی چیز ہے مگر اے دوست!
وصال کو ، مری دنیائے آرزو نہ بنا
ہجر-و-وصالکچھ ایسی بھی گزری ہیں ترے ہجر میں راتیں
دل درد سے خالی ہو مگر نیند نہ آئے
ہجر-و-وصالبہت دنوں میں محبت کو یہ ہوا معلوم
جو تیرے ہجر میں گزری ، وہ رات ، رات ہوئی
ہجر-و-وصالدردِ فراق ہی میں کٹی ساری زندگی
گرچہ ترا وصال ، بڑا کام بھی نہ تھا
ہجر-و-وصالہم سے کیا ہو سکا محبت میں
تم نے تو خیر بےوفائی کی
وفا-جفاان جفاؤں پر تری اے حسنِ دوست!
کیوں وفاؤں کا گماں ہوتا نہیں
وفا-جفاجس میں ہو تیری یاد بھی شامل
ہائے اس بےخودی کو کیا کہئے
خودی-بےخودیکئی بجلیاں بےگرے گر پڑیں
ان آنکھوں کو اب آ گیا مسکرانا
آنکھسانس لیتی ہے وہ زمین فراقؔ
جس پہ وہ ناز سے گزرتے ہیں
ناز-انداز-نزاکت-اداتیرے آنے کی کیا امید مگر
کیسے کہہ دوں کہ انتظار نہیں
انتظار-منتظرکوئی آیا ، نہ آئے گا ، لیکن
کیا کریں ، گر نہ ، انتظار کریں
انتظار-منتظرنہ کوئی وعدہ ، نہ کوئی یقیں ، نہ کوئی امید
مگر ہمیں تو ترا انتظار کرنا تھا
انتظار-منتظرہائے ان کی عمر کا رنگیں نظام
بت کدہ کی صبح ، مےخانہ کی شام
کعبہ-بت-بت کدہ-بت خانہعشق دنیا سے بےخبر ہے مگر
پیٹ کی بات جان لیتا ہے
حسن و عشقکوئی سمجھے تو ایک بات کہوں
عشق توفیق ہے گناہ نہیں
حسن و عشقوقتِ پیری دوستوں کی بےرخی کا کیا گلہ
بچ کے چلتے ہیں سبھی گرتی ہوئی دیوار سے
وقتالفت کا نشہ جب کوئی مر جائے تو جائے
یہ دردِ سری وہ ہے کہ سر جائے تو جائے
زمیں-آسماں-فلک-عرشغرض کی کاٹ دئے زندگی کے دن اے دوست
وہ تری یاد میں ہوں ، یا تجھے بھلانے میں
میرے پسندیدہ اشعارکوئی سمجھے تو ایک بات کہوں
عشق توفیق ہے گناہ نہیں
میرے پسندیدہ اشعاردشمنوں نے تو دشمنی کی ہے
دوستوں نے بھی کیا کمی کی ہے
میرے پسندیدہ اشعارموت کا بھی علاج ہو شاید
زندگی کا کوئی علاج نہیں
میرے پسندیدہ اشعارپال لے ایک روگ ناداں زندگی کے واسطے
صرف صحت کے سہارے زندگی کٹتی نہیں
زندگی-زیست-حیاتآج آنکھوں میں کاٹ دے شبِ ہجر
زندگانی پڑی ہے سو لینا
زندگی-زیست-حیاتغرض کہ کاٹ دئے ، زندگی کے دن اے دوست
وہ تیری یاد میں ہوں ، یا تجھے بھلانے میں
زندگی-زیست-حیاتموت کا بھی ، علاج ہو شاید
زندگی کا ، کوئی علاج نہیں
زندگی-زیست-حیاتاگر ممکن ہو ، تو سو سو جتن سے
عزیزو! کاٹ لو ، یہ زندگی ہے
زندگی-زیست-حیاتگُر زندگی کے سیکھو ، کھلتی ہوئی کلی سے
لب پر ہے مسکراہٹ ، دل خون ہو رہا ہے
زندگی-زیست-حیاتاے دوست! یوں تو ہم تری ، حسرت کو کیا کہیں
لیکن یہ زندگی تو ، کوئی زندگی نہیں
زندگی-زیست-حیاتبہت پہلے سے ان قدموں کی ، آہٹ جان لیتے ہیں
تجھے اے زندگی! ہم دور سے ، پہچان لیتے ہیں
زندگی-زیست-حیاتترا وصال بڑی چیز ہے مگر اے دوست
وصال کو مری دنیائے آرزو نہ بنا
تمنا-آرزو-خواہشبھری محفل میں ہر اک سے بچا کر
تری آنکھوں نے مجھ سے بات کر لی
آنکھ-چشم