یہ شنکھ یہ اذان سلامت رہے تو اچھا ہے
وطن کی شان سلامت رہے تو اچھا ہے
مرا وطن تو رواداریوں پہ قائم ہے
یہ خاندان سلامت رہے تو اچھا ہے
مری زباں سے ہمیشہ ہی سچ نکلتا ہے
مری زبان سلامت رہے تو اچھا ہے
غرورِ علم نے مجھ کو زمیں سے چھین لیا
تری اڑان سلامت رہے تو اچھا ہے
رہِ وفا میں کوئی پیچ و خم نہیں ہوتا
یہی گمان سلامت رہے تو اچھا ہے
وہ آندھیاں ہیں ، مری جھونپڑی کی بات نہیں
ترا مکان سلامت رہے تو اچھا ہے
دیے کی لو کھیل کر رہی ہے اشوکؔ
چراغ دان سلامت رہے تو اچھا ہے
نفرتیں دل سے مٹاؤ تو کوئی بات بنے
پیار کی شمعیں جلاؤ تو کوئی بات بنے
نیکی بدی کی اب کوئی میزان ہی نہیں
ایماں کی بات یہ ہے کہ ایمان ہی نہیں
شمع اخلاص و یقیں دل میں جلا کر چلئے
ظلمت یاس میں امید جگا کر چلئے
رسم الفت جہاں میں عام کرو
پیار سے دشمن کو رام کرو
اس کو غرور حسن نے کیا کیا بنا دیا
پتھر بنا دیا کبھی شیشہ بنا دیا
منزلِ صدق و صفا کا راستہ اپنائیے
کاروانِ زندگی کے رہنما بن جائیے
پلکوں پہ انتظار کا موسم سجا لیا
اس سے بچھڑکے روگ گلے سے لگا لیا
پتھر ہی رہنے دیجئے شیشہ نہ کیجئے
احباب سے وفا کا تقاضا نہ کیجئے
جو ضروری ہے کار کر پہلے
شکرِ پروردگار کر پہلے
جو بھی دیتا ہے وہ بندے کو خدا دیتا ہے
پیڑ کا سایہ بھلا پیڑ کو کیا دیتا ہے
برکت ہمارے رزق میں آئے گی کس طرح
گھر میں ہمارے جب کوئی مہمان ہی نہیں