پتھر ہی رہنے دیجئے شیشہ نہ کیجئے
احباب سے وفا کا تقاضا نہ کیجئے
جس سے ہمارے دیش کی قدریں ہوں پائمال
ایسی کسی بھی شئے کی تمنا نہ کیجئے
دامن میں کوئی ساری خدائی بھی ڈال دے
لیکن کبھی اصول کا سودا نہ کیجئے
عزت کی موت کو بھی لگا لیجئے گلے
ذلت کی زندگی بھی گوارا نہ کیجئے
دکھ جائے دل کسی کا رویہ سے آپ کے
ایسا نہ کیجئے کبھی ایسا نہ کیجئے
کچھ شمعیں رہگزر میں بھی رکھئے تو بات ہے
اپنے ہی گھر میں صرف اجالا نہ کیجئے
حالات کہہ رہے ہیں زمانہ کے ساتھ چل
لیکن اشوکؔ آپ تو ایسا نہ کیجئے
نفرتیں دل سے مٹاؤ تو کوئی بات بنے
پیار کی شمعیں جلاؤ تو کوئی بات بنے
نیکی بدی کی اب کوئی میزان ہی نہیں
ایماں کی بات یہ ہے کہ ایمان ہی نہیں
شمع اخلاص و یقیں دل میں جلا کر چلئے
ظلمت یاس میں امید جگا کر چلئے
رسم الفت جہاں میں عام کرو
پیار سے دشمن کو رام کرو
اس کو غرور حسن نے کیا کیا بنا دیا
پتھر بنا دیا کبھی شیشہ بنا دیا
منزلِ صدق و صفا کا راستہ اپنائیے
کاروانِ زندگی کے رہنما بن جائیے
پلکوں پہ انتظار کا موسم سجا لیا
اس سے بچھڑکے روگ گلے سے لگا لیا
یہ شنکھ یہ اذان سلامت رہے تو اچھا ہے
وطن کی شان سلامت رہے تو اچھا ہے
جو ضروری ہے کار کر پہلے
شکرِ پروردگار کر پہلے
جو بھی دیتا ہے وہ بندے کو خدا دیتا ہے
پیڑ کا سایہ بھلا پیڑ کو کیا دیتا ہے
برکت ہمارے رزق میں آئے گی کس طرح
گھر میں ہمارے جب کوئی مہمان ہی نہیں