پلکوں پہ انتظار کا موسم سجا لیا
اس سے بچھڑکے روگ گلے سے لگا لیا
کوئی تو ایسی بات تھی ہم کچھ نہ کر سکے
سارے جہاں میں خود کو تماشا بنا لیا
اب یہ کسے بتائیں ہمیں کیا خوشی ملی
جس دن ذرا سے بوجھ کسی کا اٹھا لیا
میں عمر بھر نہ جانے بھٹکتا کہاں کہاں
اچھا ہوا جو آپ نے اپنا بنا لیا
کتنے سکوں سے کاٹ دی پرکھوں نے زندگی
جو مل گیا نصیب سے ، چپ چاپ کھا لیا
احباب کو نہ دیجئے الزام دوستو!
ہم نے تو دشمنوں کو بھی اپنا بنا لیا
گزرے ہیں زندگی میں بہت تجربات سے
لیکن اشوکؔ جینے کا انداز پا لیا
نفرتیں دل سے مٹاؤ تو کوئی بات بنے
پیار کی شمعیں جلاؤ تو کوئی بات بنے
نیکی بدی کی اب کوئی میزان ہی نہیں
ایماں کی بات یہ ہے کہ ایمان ہی نہیں
شمع اخلاص و یقیں دل میں جلا کر چلئے
ظلمت یاس میں امید جگا کر چلئے
رسم الفت جہاں میں عام کرو
پیار سے دشمن کو رام کرو
اس کو غرور حسن نے کیا کیا بنا دیا
پتھر بنا دیا کبھی شیشہ بنا دیا
منزلِ صدق و صفا کا راستہ اپنائیے
کاروانِ زندگی کے رہنما بن جائیے
پتھر ہی رہنے دیجئے شیشہ نہ کیجئے
احباب سے وفا کا تقاضا نہ کیجئے
یہ شنکھ یہ اذان سلامت رہے تو اچھا ہے
وطن کی شان سلامت رہے تو اچھا ہے
جو ضروری ہے کار کر پہلے
شکرِ پروردگار کر پہلے
جو بھی دیتا ہے وہ بندے کو خدا دیتا ہے
پیڑ کا سایہ بھلا پیڑ کو کیا دیتا ہے
برکت ہمارے رزق میں آئے گی کس طرح
گھر میں ہمارے جب کوئی مہمان ہی نہیں