منزلِ صدق و صفا کا راستہ اپنائیے
کاروانِ زندگی کے رہنما بن جائیے
ہم نے مانا ہر طرف تیرہ شبی کا راج ہے
آپ سورج ہیں اگر تو روشنی پھیلائیے
آئینہ پتھر سے ٹکرانا ضروری تو نہیں
بات جب ہے آئینہ سے آئینہ ٹکرائیے
آپ کو تیرہ شبی سے اس قدر کیوں خوف ہے
ہو سکے تو ایک جگنو ہی مقابل لائیے
یہ تو سچ ہے زندگی زندہ دلی کا نام ہے
زندگی کے نام پر اتنا بھی مت اترائیے
گر یونہی کرتا رہا مجھ کو زمانہ پائمال
آپ کو سب کیا کہیں گے غور تو فرمائیے
یہ بھی اک سستا سا اندازِ سیاست ہے اشوکؔ
کچھ نہ کیجے بیٹھ کر بس تبصرے فرمائیے
نفرتیں دل سے مٹاؤ تو کوئی بات بنے
پیار کی شمعیں جلاؤ تو کوئی بات بنے
نیکی بدی کی اب کوئی میزان ہی نہیں
ایماں کی بات یہ ہے کہ ایمان ہی نہیں
شمع اخلاص و یقیں دل میں جلا کر چلئے
ظلمت یاس میں امید جگا کر چلئے
رسم الفت جہاں میں عام کرو
پیار سے دشمن کو رام کرو
اس کو غرور حسن نے کیا کیا بنا دیا
پتھر بنا دیا کبھی شیشہ بنا دیا
پلکوں پہ انتظار کا موسم سجا لیا
اس سے بچھڑکے روگ گلے سے لگا لیا
پتھر ہی رہنے دیجئے شیشہ نہ کیجئے
احباب سے وفا کا تقاضا نہ کیجئے
یہ شنکھ یہ اذان سلامت رہے تو اچھا ہے
وطن کی شان سلامت رہے تو اچھا ہے
جو ضروری ہے کار کر پہلے
شکرِ پروردگار کر پہلے
جو بھی دیتا ہے وہ بندے کو خدا دیتا ہے
پیڑ کا سایہ بھلا پیڑ کو کیا دیتا ہے
برکت ہمارے رزق میں آئے گی کس طرح
گھر میں ہمارے جب کوئی مہمان ہی نہیں