رسم الفت جہاں میں عام کرو
پیار سے دشمن کو رام کرو
آج ہنسا ہی پرمو دھرما ہے
تم اہنسا کا اہتمام کرو
اک لعنت ہے مغربی کلچر
اپنی قدروں کا احترام کرو
میں مسلماں ہوں اور وہ ہندو
اب یہ قصہ یہیں تمام کرو
دیش کعبہ ہے ، دیش متھرا ہے
سب مذاہب کا احترام کرو
شیخ مے کو حرام کہتے ہیں
احتیاطاً ہی اہتمام کرو
دوستوں کو پرکھ چکے ہو اشوک
دشمنوں کو بھی شاد کام کرو
نفرتیں دل سے مٹاؤ تو کوئی بات بنے
پیار کی شمعیں جلاؤ تو کوئی بات بنے
نیکی بدی کی اب کوئی میزان ہی نہیں
ایماں کی بات یہ ہے کہ ایمان ہی نہیں
شمع اخلاص و یقیں دل میں جلا کر چلئے
ظلمت یاس میں امید جگا کر چلئے
اس کو غرور حسن نے کیا کیا بنا دیا
پتھر بنا دیا کبھی شیشہ بنا دیا
منزلِ صدق و صفا کا راستہ اپنائیے
کاروانِ زندگی کے رہنما بن جائیے
پلکوں پہ انتظار کا موسم سجا لیا
اس سے بچھڑکے روگ گلے سے لگا لیا
پتھر ہی رہنے دیجئے شیشہ نہ کیجئے
احباب سے وفا کا تقاضا نہ کیجئے
یہ شنکھ یہ اذان سلامت رہے تو اچھا ہے
وطن کی شان سلامت رہے تو اچھا ہے
جو ضروری ہے کار کر پہلے
شکرِ پروردگار کر پہلے
جو بھی دیتا ہے وہ بندے کو خدا دیتا ہے
پیڑ کا سایہ بھلا پیڑ کو کیا دیتا ہے
برکت ہمارے رزق میں آئے گی کس طرح
گھر میں ہمارے جب کوئی مہمان ہی نہیں