شمع اخلاص و یقیں دل میں جلا کر چلئے
ظلمت یاس میں امید جگا کر چلئے
ہم سے دیوانے کہاں زاد سفر رکھتے ہیں
ساتھ چلنا ہے تو اسباب لٹا کر چلئے
عشق کا راستہ آسان نہیں ہوتا ہے
بازیٔ عشق میں جان اپنی لٹا کر چلئے
رات اندھیری ہو تو جگنو کی چمک کافی ہے
شرط اتنی ہے کہ احساس جگا کر چلئے
نفرت و بغض کا انجام برا ہوتا ہے
نفرت و بغض سے دامن کو بچا کر چلئے
رات سفاک ہے سورج کو نگل جاتی ہے
اپنی مٹھی میں ستاروں کو چھپاکر چلئے
ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا ہے اشوک
اب چراغوں کی جگہ دل کو جلا کر چلئے
نفرتیں دل سے مٹاؤ تو کوئی بات بنے
پیار کی شمعیں جلاؤ تو کوئی بات بنے
نیکی بدی کی اب کوئی میزان ہی نہیں
ایماں کی بات یہ ہے کہ ایمان ہی نہیں
رسم الفت جہاں میں عام کرو
پیار سے دشمن کو رام کرو
اس کو غرور حسن نے کیا کیا بنا دیا
پتھر بنا دیا کبھی شیشہ بنا دیا
منزلِ صدق و صفا کا راستہ اپنائیے
کاروانِ زندگی کے رہنما بن جائیے
پلکوں پہ انتظار کا موسم سجا لیا
اس سے بچھڑکے روگ گلے سے لگا لیا
پتھر ہی رہنے دیجئے شیشہ نہ کیجئے
احباب سے وفا کا تقاضا نہ کیجئے
یہ شنکھ یہ اذان سلامت رہے تو اچھا ہے
وطن کی شان سلامت رہے تو اچھا ہے
جو ضروری ہے کار کر پہلے
شکرِ پروردگار کر پہلے
جو بھی دیتا ہے وہ بندے کو خدا دیتا ہے
پیڑ کا سایہ بھلا پیڑ کو کیا دیتا ہے
برکت ہمارے رزق میں آئے گی کس طرح
گھر میں ہمارے جب کوئی مہمان ہی نہیں