نفرتیں دل سے مٹاؤ تو کوئی بات بنے
پیار کی شمعیں جلاؤ تو کوئی بات بنے
آج انسان خدا خود کو سمجھ بیٹھا ہے
اس کو انسان بناؤ تو کوئی بات بنے
تیرگی بڑھنے لگی اپنی حدوں سے آگے
مشعلیں دن میں جلاؤ تو کوئی بات بنے
ہو جہاں عدل جہانگیری میسر سب کو
اک جہاں ایسا بناؤ تو کوئی بات بنے
میکدہ میں نظر آتے ہیں سبھی جام بدست
مجھ کو آنکھوں سے پلاؤ تو کوئی بات بنے
دھرم کے نام پہ خون کتنا بہاؤگے میاں
پیار کے جام لنڈھاؤ تو کوئی بات بنے
مسئلے خون خرابے سے نمپٹتے کب ہیں
پیار سے ان کو مناؤ تو کوئی بات بنے
ہو جو دنیا کے لئے امن و سکون کا ضامن
ایسا پیغام سناؤ تو کوئی بات بنے
جن کے ہونٹوں سے ہنسی چھین لی دنیا نے اشوکؔ
ان کو سینے سے لگاؤ تو کوئی بات بنے
نیکی بدی کی اب کوئی میزان ہی نہیں
ایماں کی بات یہ ہے کہ ایمان ہی نہیں
شمع اخلاص و یقیں دل میں جلا کر چلئے
ظلمت یاس میں امید جگا کر چلئے
رسم الفت جہاں میں عام کرو
پیار سے دشمن کو رام کرو
اس کو غرور حسن نے کیا کیا بنا دیا
پتھر بنا دیا کبھی شیشہ بنا دیا
منزلِ صدق و صفا کا راستہ اپنائیے
کاروانِ زندگی کے رہنما بن جائیے
پلکوں پہ انتظار کا موسم سجا لیا
اس سے بچھڑکے روگ گلے سے لگا لیا
پتھر ہی رہنے دیجئے شیشہ نہ کیجئے
احباب سے وفا کا تقاضا نہ کیجئے
یہ شنکھ یہ اذان سلامت رہے تو اچھا ہے
وطن کی شان سلامت رہے تو اچھا ہے
جو ضروری ہے کار کر پہلے
شکرِ پروردگار کر پہلے
جو بھی دیتا ہے وہ بندے کو خدا دیتا ہے
پیڑ کا سایہ بھلا پیڑ کو کیا دیتا ہے
برکت ہمارے رزق میں آئے گی کس طرح
گھر میں ہمارے جب کوئی مہمان ہی نہیں