رخ سے پردہ اٹھا دے ذرا ساقیا
بس ابھی رنگ محفل بدل جائےگا
ہے جو بیہوش وہ ہوش میں آئےگا
گرنے والا ہے جو وہ سنبھل جائےگا
تم تسلی نہ دو یوں ہی بیٹھے رہو
وقت مرنے کا میرا بھی ٹل جائےگا
کیا یہ کم ہے مسیحا کی رہتے ہوئے
موت کا بھی ارادہ بدل جائےگا
میری فریاد سے وہ تڑپ جائیں گے
میرے دل کو ملال ہوگا اس کا مگر
کیا یہ کم ہے کہ وہ بے نقاب آئیں گے
مرنے والے کا ارماں نکل جائےگا
اپنے پردے کا رکھنا ہے گر کچھ بھرم
سامنے آنا جانا مناسب نہیں
ایک وحشی سے یہ چھیڑ اچھی نہیں
کیا کروگے اگر وہ مچل جائےگا
میرا دامن تو جل ہی چکا ہے مگر
آنچ تم تک بھی آئے گوارا نہیں
میرے آنسو نہ پونچھو خدا کے لئے
ورنہ آنچل تمہارا بھی جل جائےگا
کوئی زیادہ نظمیں انور مرزا پوری سے دستیاب ہیں