روزن نہیں
آنگن نہیں
اک شمع تک روشن نہیں
آٹا نہیں، راشن نہیں
پر سوچ تو اے ہم نشیں
بچہ نہیں تو کچھ نہیں
اس دیش کا جو مرد ہے
گو لاکھ چہرہ زرد ہے
بچہ کشی میں فرد ہے
دوچار کا داماد ہے
پھر بھی بڑا آزاد ہے
اور صاحب اولاد ہے
اک دن سفر کو ہم چلے
اور ریل میں ہم گھس گئے
بچوں سے ہم منھ موڑ کر
سارے قلندر چھوڑ کر
کچھ اس طرف
کچھ اس طرف
اور گھیر لیں سیٹیں تمام
رکھا مگر یہ اہتمام
کوئی زیادہ نظمیں فرخت کاکوروی سے دستیاب ہیں