آج اک اجنبی سے نگاہیں ملیں
صرف اک لمحۂ مختصر کے لئے
زندگی اس طرح مطمئن ہوگئی
جیسے کچھ پا لیا عمر بھر کے لئے
رائیگاں کیجئے آپ سجدے مرے
میرا کیا ہے میں اٹھ کر چلا جائوں گا
کل کہیں آپ ہی کو نہ کہنا پڑے
اک جبیں چاہئے سنگ در کے لئے
بس تری جستجو میں ہیں کھوئے ہوئے
کوئی ممنون ہے کوئی محروم ہے
آخرش اس نتیجہ پہ پہنچے ہیں ہم
تیرے جلوے نہیں ہر نظر کے لئے
میں نے بخشیں زمانے کو ضو پاشیاں
اور خود اک تجلی کا محتاج ہوں
روشنی دینے والے کو بھی کم سے کم
اک دیا چاہئے اپنے گھر کے لئے
اے شکیل ان کی محفل میں بھی کیا ملا
اور کچھ بڑھ گئیں دل کی بےتابیاں
سب کی جانب رہی وہ نگاہ کرم
ہم ترستے رہے اک نظر کے لئے
کوئی زیادہ نظمیں شکیل بدایونی سے دستیاب ہیں