مسافر تھے رستے بدلتے رہے
مقدر میں چلنا تھا چلتے رہے
محبت، عداوت، وفا، بے رخی
کرائے کے گھر تھے بدلتے رہے
لپٹ کر چراغوں سے وہ سو گئے
جو پھولوں پہ کروٹ بدلتے رہے
کوئی پھول سا ہاتھ کاندھے پہ تھا
مرے پاؤں شعلوں پہ چلتے رہے
وہ کیا تھا جسے ہم نے ٹھکرا دیا
مگر عمر بھر ہاتھ ملتے رہے
کوئی زیادہ نظمیں بشیر بدر سے دستیاب ہیں