اشوک ساہنی کے نئے اشعار

گر ہوسکے تو بخش دے غیروں کی ہر خطا

لیکن نہ کرنا اپنی خطاؤں سے درگزر

پہلے منزل کا تعین کیجئے

راستہ تو خود بہ خود مل جائے گا

آہٹ سے کہیں ٹوٹے نہ تنہائی کا عالم

چپکے سے تصور میں مرے پاس چلا آ

جیتے جی پھیرلیں اس نے بھی نگاہیں اپنی

اس سے بڑھ کے بھی کوئی اور قیامت ہوگی

آتش رخسار و لب کیا پوچھتے ہو اے اشوک

اس کی حدت سے جہنم کو پسینہ آگیا

آنے کا وعدہ کرگئے آئے نہ پر کبھی

دور شباب ڈھل گیا پیری گزر چلی

وائے حسرت ! اب کوئی حسرت نہیں

دل ہے مدفن حسرت ناکام کا

میری دعائیں ہونہ سکیں اس لئے قبول

شاید وہ ان دعاؤں کا حقدار ہی نہ تھا

کس قدر توبہ شکن یہ تری انگڑائی ہے

اک قیامت ترے جوبن پہ اتر آئی ہے

دھوکہ اس سے کھا گیا میں اس لئے اے ساہنی

اس نے رخ پر ڈال رکھا تھا نقاب دوستی