گر ہوسکے تو بخش دے غیروں کی ہر خطا
لیکن نہ کرنا اپنی خطاؤں سے درگزر
پہلے منزل کا تعین کیجئے
راستہ تو خود بہ خود مل جائے گا
آہٹ سے کہیں ٹوٹے نہ تنہائی کا عالم
چپکے سے تصور میں مرے پاس چلا آ
جیتے جی پھیرلیں اس نے بھی نگاہیں اپنی
اس سے بڑھ کے بھی کوئی اور قیامت ہوگی
آتش رخسار و لب کیا پوچھتے ہو اے اشوک
اس کی حدت سے جہنم کو پسینہ آگیا
آنے کا وعدہ کرگئے آئے نہ پر کبھی
دور شباب ڈھل گیا پیری گزر چلی
وائے حسرت ! اب کوئی حسرت نہیں
دل ہے مدفن حسرت ناکام کا
میری دعائیں ہونہ سکیں اس لئے قبول
شاید وہ ان دعاؤں کا حقدار ہی نہ تھا
کس قدر توبہ شکن یہ تری انگڑائی ہے
اک قیامت ترے جوبن پہ اتر آئی ہے
دھوکہ اس سے کھا گیا میں اس لئے اے ساہنی
اس نے رخ پر ڈال رکھا تھا نقاب دوستی
نفرتیں دل سے مٹاؤ تو کوئی بات بنے
پیار کی شمعیں جلاؤ تو کوئی بات بنے
نیکی بدی کی اب کوئی میزان ہی نہیں
ایماں کی بات یہ ہے کہ ایمان ہی نہیں
شمع اخلاص و یقیں دل میں جلا کر چلئے
ظلمت یاس میں امید جگا کر چلئے
رسم الفت جہاں میں عام کرو
پیار سے دشمن کو رام کرو
اس کو غرور حسن نے کیا کیا بنا دیا
پتھر بنا دیا کبھی شیشہ بنا دیا
منزلِ صدق و صفا کا راستہ اپنائیے
کاروانِ زندگی کے رہنما بن جائیے
پلکوں پہ انتظار کا موسم سجا لیا
اس سے بچھڑکے روگ گلے سے لگا لیا
پتھر ہی رہنے دیجئے شیشہ نہ کیجئے
احباب سے وفا کا تقاضا نہ کیجئے
یہ شنکھ یہ اذان سلامت رہے تو اچھا ہے
وطن کی شان سلامت رہے تو اچھا ہے
جو ضروری ہے کار کر پہلے
شکرِ پروردگار کر پہلے
جو بھی دیتا ہے وہ بندے کو خدا دیتا ہے
پیڑ کا سایہ بھلا پیڑ کو کیا دیتا ہے