خوشیوں کی جستجو ہے مجھے ، اس خیال سے
مل جائیں گر یہ مجھ کو ، زمانے میں بانٹ دوں
مجھ سے اس بات پہ ناراض ہے یہ دنیا ساری
میں نے کیوں کر کسی مظلوم کی غم خواری کی
جب تصور میں بھی تم مرے ساتھ ہو
میری خلوت میں بھی آجاؤ تو کچھ بات ہو
عید و دیوالی منانے سے یہ اچھا ہوتا
ہم کسی مفلس و نادار کے ہم دم ہوتے
میں انساں ہوں مجھے انسانیت سے پیار ہے یارو
فقط دیر و حرم کی پاسبانی میں نہیں کرتا
ستم پر ستم ہم جو سہتے رہیں گے
مظالم بھی ظالم کے بڑھتے رہیں گے
آج تو مجھ سے خفا ہے کل ہوں میں تجھ سے خفا
مستقل ہوتی نہیں رنجشیں اے بےوفا
تری صورت سے حسیں اور بھی مل جائیں گے
جس میں سیرت بھی ہو تیری ، وہ کہاں سے لاؤں
دیتا ہے لاکھ نعمتیں مانگے بغیر وہ
پھر کیوں نہ شکر ہم کریں پروردگار کا
خلوص دل سے کر محنت خود اپنے ہی بھروسے جی
خدا کو یاد رکھ منز ل ترے قدموں کو چومے گی
نفرتیں دل سے مٹاؤ تو کوئی بات بنے
پیار کی شمعیں جلاؤ تو کوئی بات بنے
نیکی بدی کی اب کوئی میزان ہی نہیں
ایماں کی بات یہ ہے کہ ایمان ہی نہیں
شمع اخلاص و یقیں دل میں جلا کر چلئے
ظلمت یاس میں امید جگا کر چلئے
رسم الفت جہاں میں عام کرو
پیار سے دشمن کو رام کرو
اس کو غرور حسن نے کیا کیا بنا دیا
پتھر بنا دیا کبھی شیشہ بنا دیا
منزلِ صدق و صفا کا راستہ اپنائیے
کاروانِ زندگی کے رہنما بن جائیے
پلکوں پہ انتظار کا موسم سجا لیا
اس سے بچھڑکے روگ گلے سے لگا لیا
پتھر ہی رہنے دیجئے شیشہ نہ کیجئے
احباب سے وفا کا تقاضا نہ کیجئے
یہ شنکھ یہ اذان سلامت رہے تو اچھا ہے
وطن کی شان سلامت رہے تو اچھا ہے
جو ضروری ہے کار کر پہلے
شکرِ پروردگار کر پہلے
جو بھی دیتا ہے وہ بندے کو خدا دیتا ہے
پیڑ کا سایہ بھلا پیڑ کو کیا دیتا ہے