اشوک ساہنی کے نئے اشعار

خوشیوں کی جستجو ہے مجھے ، اس خیال سے

مل جائیں گر یہ مجھ کو ، زمانے میں بانٹ دوں

مجھ سے اس بات پہ ناراض ہے یہ دنیا ساری

میں نے کیوں کر کسی مظلوم کی غم خواری کی

جب تصور میں بھی تم مرے ساتھ ہو

میری خلوت میں بھی آجاؤ تو کچھ بات ہو

عید و دیوالی منانے سے یہ اچھا ہوتا

ہم کسی مفلس و نادار کے ہم دم ہوتے

میں انساں ہوں مجھے انسانیت سے پیار ہے یارو

فقط دیر و حرم کی پاسبانی میں نہیں کرتا

ستم پر ستم ہم جو سہتے رہیں گے

مظالم بھی ظالم کے بڑھتے رہیں گے

آج تو مجھ سے خفا ہے کل ہوں میں تجھ سے خفا

مستقل ہوتی نہیں رنجشیں اے بےوفا

تری صورت سے حسیں اور بھی مل جائیں گے

جس میں سیرت بھی ہو تیری ، وہ کہاں سے لاؤں

دیتا ہے لاکھ نعمتیں مانگے بغیر وہ

پھر کیوں نہ شکر ہم کریں پروردگار کا

خلوص دل سے کر محنت خود اپنے ہی بھروسے جی

خدا کو یاد رکھ منز ل ترے قدموں کو چومے گی