تاکہ چھو لے اسے ہر اک بچہ
ہر کلی نے جھکا دی شاخ اپنی
پھولوں کی سمت جاتی ہے کانٹوں کی رہ گزر
گر پھول ہیں عزیز تو کانٹوں پہ کر بسر
ہم لگالیتے ہیں کانٹوں کو بھی دل سے اپنے
لوگ بے رحم ہیں پھولوں کو مسل دیتے ہیں
وعدے پہ اپنے خواب میں آتے تو وہ ضرور
جب نیند ہی نہ آئے تو انکا ہے کیا قصور
یاد بھی ان کی مجھ سے بہت دور ہے
میں بھی مجبور ہوں، دل بھی مجبور ہے
زمانے نے لگائیں لاکھ ہم پر بندشیں لیکن
سر محفل مری نظروں نے ان سے گفتگو کرلی
شاید ترے کلام سے ملتا نہ وہ سکوں
مجھ کو تری نگاہ نے خوشحال کردیا
تو مجھ میں سماگیا ہے ایسے
تری چپ بھی سنائی دے جیسے
اتنا غم حیات نے مایوس کردیا
اب تو تمہاری یاد بھی آتی نہیں مجھے
خواب بن جاؤ تم اگر میرا
میں آنکھیں عمر بھر نہ کھولوں
نفرتیں دل سے مٹاؤ تو کوئی بات بنے
پیار کی شمعیں جلاؤ تو کوئی بات بنے
نیکی بدی کی اب کوئی میزان ہی نہیں
ایماں کی بات یہ ہے کہ ایمان ہی نہیں
شمع اخلاص و یقیں دل میں جلا کر چلئے
ظلمت یاس میں امید جگا کر چلئے
رسم الفت جہاں میں عام کرو
پیار سے دشمن کو رام کرو
اس کو غرور حسن نے کیا کیا بنا دیا
پتھر بنا دیا کبھی شیشہ بنا دیا
منزلِ صدق و صفا کا راستہ اپنائیے
کاروانِ زندگی کے رہنما بن جائیے
پلکوں پہ انتظار کا موسم سجا لیا
اس سے بچھڑکے روگ گلے سے لگا لیا
پتھر ہی رہنے دیجئے شیشہ نہ کیجئے
احباب سے وفا کا تقاضا نہ کیجئے
یہ شنکھ یہ اذان سلامت رہے تو اچھا ہے
وطن کی شان سلامت رہے تو اچھا ہے
جو ضروری ہے کار کر پہلے
شکرِ پروردگار کر پہلے
جو بھی دیتا ہے وہ بندے کو خدا دیتا ہے
پیڑ کا سایہ بھلا پیڑ کو کیا دیتا ہے