آتے نہیں ہیں تنگ کبھی، زندگی سے ہم
نزدیک غم کو رکھتے ہیں ، اپنی خوشی سے ہم
اب موت سے بھی ساہنی، ڈرتے نہیں ہیں ہم
جب سے غم حیات کو اپنا بنا لیا
ہم تو خوشبو ہیں ، اگر ساتھ ہوا کا، مل جائے
دوست تو دوست ہیں، دشمن کے بھی ، گھر جائیں گے
غم سے ناطہ توڑ کر اے دل ، سدا پچھتائے گا
غم رفیق زندگی ہے، ساتھ تیرے جائےگا
دوستوں اور دشمنوں میں فرق بس جذبے کا ہے
دوست جب نفرت کریں گے غیر ہی کہلائیں گے
دشمنی ہوتی ہے آخر کار کیا
دوستی کا رخ پلٹ کر دیکھ لو
چاہتا ہے تو اگر دل سے سکون دائمی
اپنے دشمن کی بجائے دشمنی کو قتل کر
ایک مدت میں حقیقت یہ کھلی
دوستی کی انتہا ہے دشمنی
عدو پر اس قدر احسان پر احسان کرتا جا
کہ دشمن دوستی کرنے پہ خود مجبور ہوجائے
اپنوں نے اس قدر مجھے مایوس کردیا
شکوہ اب کسی سے نہیں مرے خدا مجھے
نفرتیں دل سے مٹاؤ تو کوئی بات بنے
پیار کی شمعیں جلاؤ تو کوئی بات بنے
نیکی بدی کی اب کوئی میزان ہی نہیں
ایماں کی بات یہ ہے کہ ایمان ہی نہیں
شمع اخلاص و یقیں دل میں جلا کر چلئے
ظلمت یاس میں امید جگا کر چلئے
رسم الفت جہاں میں عام کرو
پیار سے دشمن کو رام کرو
اس کو غرور حسن نے کیا کیا بنا دیا
پتھر بنا دیا کبھی شیشہ بنا دیا
منزلِ صدق و صفا کا راستہ اپنائیے
کاروانِ زندگی کے رہنما بن جائیے
پلکوں پہ انتظار کا موسم سجا لیا
اس سے بچھڑکے روگ گلے سے لگا لیا
پتھر ہی رہنے دیجئے شیشہ نہ کیجئے
احباب سے وفا کا تقاضا نہ کیجئے
یہ شنکھ یہ اذان سلامت رہے تو اچھا ہے
وطن کی شان سلامت رہے تو اچھا ہے
جو ضروری ہے کار کر پہلے
شکرِ پروردگار کر پہلے
جو بھی دیتا ہے وہ بندے کو خدا دیتا ہے
پیڑ کا سایہ بھلا پیڑ کو کیا دیتا ہے