بھرا ہوا ہے دماغوں میں زہر نفرت کا
سوال یہ ہے محبت کہاں سے آئے گی
ہمارے پیار میں کردار کی بلندی ہے
ہمارے ساتھ میں ہے کائنات آجاؤ
دامن میں کوئی ساری خدائی بھی ڈال دے
لیکن کبھی اصول کا سودا نہ کیجئے
یہ شنکھ ، یہ اذان سلامت رہے تو اچھا ہے
وطن کی شان سلامت رہے تو اچھا ہے
مرا وطن تو رواداریوں پہ قائم ہے
یہ خاندان سلامت رہے تو اچھا ہے
اسلام کا پیام ہے امن و سلامتی
دہشت پسند صاحب ایمان ہی نہیں
اسلام تو سکھاتا ہے حب وطن اشوک
جو دشمن وطن ہیں مسلمان ہی نہیں
سر کو جھکاکے جینے سے بہتر ہے خودکشی
جینا ہے زندگی میں تو، سر کو اٹھا کے جی
زندگی غم سے سنورتی ہے ،نہ گھبرا اے دوست
حد سے بڑھ جائے اندھیرا ، تو سحر ہوتی ہے
بس یہ احساس ، کہ تو میرا ہے
مجھ کو ہر لمحہ ، سکوں دیتا ہے
نفرتیں دل سے مٹاؤ تو کوئی بات بنے
پیار کی شمعیں جلاؤ تو کوئی بات بنے
نیکی بدی کی اب کوئی میزان ہی نہیں
ایماں کی بات یہ ہے کہ ایمان ہی نہیں
شمع اخلاص و یقیں دل میں جلا کر چلئے
ظلمت یاس میں امید جگا کر چلئے
رسم الفت جہاں میں عام کرو
پیار سے دشمن کو رام کرو
اس کو غرور حسن نے کیا کیا بنا دیا
پتھر بنا دیا کبھی شیشہ بنا دیا
منزلِ صدق و صفا کا راستہ اپنائیے
کاروانِ زندگی کے رہنما بن جائیے
پلکوں پہ انتظار کا موسم سجا لیا
اس سے بچھڑکے روگ گلے سے لگا لیا
پتھر ہی رہنے دیجئے شیشہ نہ کیجئے
احباب سے وفا کا تقاضا نہ کیجئے
یہ شنکھ یہ اذان سلامت رہے تو اچھا ہے
وطن کی شان سلامت رہے تو اچھا ہے
جو ضروری ہے کار کر پہلے
شکرِ پروردگار کر پہلے
جو بھی دیتا ہے وہ بندے کو خدا دیتا ہے
پیڑ کا سایہ بھلا پیڑ کو کیا دیتا ہے