شہر میں ٹھیک نہیں بم کے دھماکے ہر روز
جنگ کو جنگ کے میدان میں رکھا جائے
لوگ کترا کے گزر جاتے ہیں
جانے کیا جرم ہوا ہے مجھ سے
نہ جانے لکھ دیا کیا موسموں نے
مرا چہرہ تماشا بن گیاہے
دکھ تو یہ ہے اس دنیا نے
زہر کا نام دوا رکھا ہے
کہاں جاؤں بتا اے وحشت دل
یہ صحرا مجھ کو گھر لگنے لگا ہے
چھو نہیں سکتی انہیں دھوپ زمانے کی کبھی
جن پر اللہ ترا ابر کرم ہوتا ہے
دلوں میں نرمیاں باقی نہیں ہیں
زبان و لفظ خنجر بن چکے ہیں
پرچھائیاں بھی گھر کے اندھیرے میں کھو گئیں
اب اور جاگنے سے کوئی فائدہ نہیں
دیکھ کر ایک زمانہ جسے تعریف کرے
ایسا کردار زمانے کو دکھایا جائے
اشوک اب یہ زمانہ کچھ بھی سمجھے
مجھے تو زندگی اچھی لگی ہے
نفرتیں دل سے مٹاؤ تو کوئی بات بنے
پیار کی شمعیں جلاؤ تو کوئی بات بنے
نیکی بدی کی اب کوئی میزان ہی نہیں
ایماں کی بات یہ ہے کہ ایمان ہی نہیں
شمع اخلاص و یقیں دل میں جلا کر چلئے
ظلمت یاس میں امید جگا کر چلئے
رسم الفت جہاں میں عام کرو
پیار سے دشمن کو رام کرو
اس کو غرور حسن نے کیا کیا بنا دیا
پتھر بنا دیا کبھی شیشہ بنا دیا
منزلِ صدق و صفا کا راستہ اپنائیے
کاروانِ زندگی کے رہنما بن جائیے
پلکوں پہ انتظار کا موسم سجا لیا
اس سے بچھڑکے روگ گلے سے لگا لیا
پتھر ہی رہنے دیجئے شیشہ نہ کیجئے
احباب سے وفا کا تقاضا نہ کیجئے
یہ شنکھ یہ اذان سلامت رہے تو اچھا ہے
وطن کی شان سلامت رہے تو اچھا ہے
جو ضروری ہے کار کر پہلے
شکرِ پروردگار کر پہلے
جو بھی دیتا ہے وہ بندے کو خدا دیتا ہے
پیڑ کا سایہ بھلا پیڑ کو کیا دیتا ہے