ہے ازل سے بے حجابی عشق کے دستور میں
شرم کیسی، کیسا پردہ عاشق دلگیر سے
سرخرو پروانہ ٹھہرا امتحان عشق میں
شمع بھی یوں تو جلی لیکن دکھاوے کے لئے
بھیس تو کوئی بدل سکتا ہے دیوانوں سا
حوصلہ چاہئے پر عشق میں پروانوں سا
دریائےمحبت میں اک ڈوبنے والے کو
ہوتا ہے بہت یارو تنکے کا سہارا بھی
میں کروں بھی تو گلا کس سے کروں
مجھ کو میری حیات نے مارا
کیا کسی بھی آنکھ میں پانی نہیں تھا اے اشوک
سب کھڑے تھے ہاتھ باندھے آشیاں جلتا رہا
اس میں بھی ناخداؤں کی سازش کا ہاتھ ہے
طوفاں ہے منتظر مرا ساحل کے آس پاس
خو ہے خاروں کی خار کھانے کی
گل کی عادت ہے مسکرانے کی
مفلسی نے جان پر چرکے لگائے اس قدر
مفلسی شرما رہی ہے مفلسی کے نام پر
جا رہے ہو گر نگاہیں پھیر کر
یہ شکستہ دل بھی لیتے جائیے
نفرتیں دل سے مٹاؤ تو کوئی بات بنے
پیار کی شمعیں جلاؤ تو کوئی بات بنے
نیکی بدی کی اب کوئی میزان ہی نہیں
ایماں کی بات یہ ہے کہ ایمان ہی نہیں
شمع اخلاص و یقیں دل میں جلا کر چلئے
ظلمت یاس میں امید جگا کر چلئے
رسم الفت جہاں میں عام کرو
پیار سے دشمن کو رام کرو
اس کو غرور حسن نے کیا کیا بنا دیا
پتھر بنا دیا کبھی شیشہ بنا دیا
منزلِ صدق و صفا کا راستہ اپنائیے
کاروانِ زندگی کے رہنما بن جائیے
پلکوں پہ انتظار کا موسم سجا لیا
اس سے بچھڑکے روگ گلے سے لگا لیا
پتھر ہی رہنے دیجئے شیشہ نہ کیجئے
احباب سے وفا کا تقاضا نہ کیجئے
یہ شنکھ یہ اذان سلامت رہے تو اچھا ہے
وطن کی شان سلامت رہے تو اچھا ہے
جو ضروری ہے کار کر پہلے
شکرِ پروردگار کر پہلے
جو بھی دیتا ہے وہ بندے کو خدا دیتا ہے
پیڑ کا سایہ بھلا پیڑ کو کیا دیتا ہے