پھول دو چار جو چننا ہیں چمن سے چن لے
رنگ کی بات نہ کر رنگ اتر جاتے ہیں
ساری مایوسیاں چھوڑدو
اپنے اوپر بھروسہ کرو
جو بھی حال پوچھے گاآنسوؤں سے رولوں گا
تیرے شہر والوں سے جھوٹ کیسے بولوں گا
خموشی ، وضع داری، سادگی مردوں کے زیور ہیں
مگر حد سے زیادہ بے کسی اچھی نہیں لگتی
اب تجھے دیکھ کر کسے دیکھوں
تو مرا آئینہ سا لگتا ہے
یہ کھری بات مری ماں نے بتائی ہے مجھے
پاک روزی ہو تو کھانے میں مزہ ہوتا ہے
ساتھ تقدیر نے جب چھوڑ دیا
کوئی پیشہ، نہ ہنر یاد آیا
سورج کے آگے شمع جلانے سے فائدہ
رکھو وہاں چراغ جہاں روشنی نہیں
جسم مردہ ہے اگر بے روح ہے
شخصیت ہے عظمت کردار سے
میں نے گھر گھر میں جلائے ہیں محبت کے چراغ
خود اندھیروں میں گھرا ہوں کیا کروں
نفرتیں دل سے مٹاؤ تو کوئی بات بنے
پیار کی شمعیں جلاؤ تو کوئی بات بنے
نیکی بدی کی اب کوئی میزان ہی نہیں
ایماں کی بات یہ ہے کہ ایمان ہی نہیں
شمع اخلاص و یقیں دل میں جلا کر چلئے
ظلمت یاس میں امید جگا کر چلئے
رسم الفت جہاں میں عام کرو
پیار سے دشمن کو رام کرو
اس کو غرور حسن نے کیا کیا بنا دیا
پتھر بنا دیا کبھی شیشہ بنا دیا
منزلِ صدق و صفا کا راستہ اپنائیے
کاروانِ زندگی کے رہنما بن جائیے
پلکوں پہ انتظار کا موسم سجا لیا
اس سے بچھڑکے روگ گلے سے لگا لیا
پتھر ہی رہنے دیجئے شیشہ نہ کیجئے
احباب سے وفا کا تقاضا نہ کیجئے
یہ شنکھ یہ اذان سلامت رہے تو اچھا ہے
وطن کی شان سلامت رہے تو اچھا ہے
جو ضروری ہے کار کر پہلے
شکرِ پروردگار کر پہلے
جو بھی دیتا ہے وہ بندے کو خدا دیتا ہے
پیڑ کا سایہ بھلا پیڑ کو کیا دیتا ہے