مدتوں میں نے لگایا تھا جنہیں سینے سے
آج وہ خار کی مانند چبھے جاتے ہیں
کس زباں سے شکر میں تیرا کروں
شیخ بھی بت کو خدا کہنے لگے
اس کو غرور حسن نے کیا کیا بنا دیا
پتھر بنا دیا کبھی شیشہ بنا دیا
توبہ نے اور مے کا طلب گار کردیا
کالی گھٹا نے مجھ کو گناہ گار کردیا
بس اچانک اٹھ گئی تھی اس کی جانب اک نظر
اس نے مجھ کو بھی گناہگاروں میں شامل کردیا
آج کے انساں بھی یارو کس قدر مایوس ہیں
چابیوں سے چل رہے ہیں منزلیں معدوم ہیں
حور و غلمان کی جنت کی کہانی سوجھی
حضرت شیخ کو پیری میں جوانی سوجھی
وہ روٹھ گیا مجھ سے کہ دل روٹھ گیا
اب دل میں کسی بات کا ارمان نہیں ہے
بس یہی حسرت ہے دل کی آخری
وہ جو آجائے تو آنکھیں موند لوں
ہوگیا شہر کھنڈر خانہ دل کی مانند
زلزلہ ہے کہ کسی شوخ کی انگڑائی ہے
نفرتیں دل سے مٹاؤ تو کوئی بات بنے
پیار کی شمعیں جلاؤ تو کوئی بات بنے
نیکی بدی کی اب کوئی میزان ہی نہیں
ایماں کی بات یہ ہے کہ ایمان ہی نہیں
شمع اخلاص و یقیں دل میں جلا کر چلئے
ظلمت یاس میں امید جگا کر چلئے
رسم الفت جہاں میں عام کرو
پیار سے دشمن کو رام کرو
اس کو غرور حسن نے کیا کیا بنا دیا
پتھر بنا دیا کبھی شیشہ بنا دیا
منزلِ صدق و صفا کا راستہ اپنائیے
کاروانِ زندگی کے رہنما بن جائیے
پلکوں پہ انتظار کا موسم سجا لیا
اس سے بچھڑکے روگ گلے سے لگا لیا
پتھر ہی رہنے دیجئے شیشہ نہ کیجئے
احباب سے وفا کا تقاضا نہ کیجئے
یہ شنکھ یہ اذان سلامت رہے تو اچھا ہے
وطن کی شان سلامت رہے تو اچھا ہے
جو ضروری ہے کار کر پہلے
شکرِ پروردگار کر پہلے
جو بھی دیتا ہے وہ بندے کو خدا دیتا ہے
پیڑ کا سایہ بھلا پیڑ کو کیا دیتا ہے