ہائے اس کافر کے دست ناز سے
شیخ جی پیتے ہی انساں ہوگئے
ختم ہوتی جارہی ہے آدمیت شہر سے
خصلتیں دیکھو تو انساں بھیڑیئے سے کم نہیں
زندگی میں اس قدر صدمے سہے
دل پگھل کو آنکھ سے بہنے لگا
تھا فلک بھی شریک غم میرا
لوگ کہتےہیں اشک کو شبنم
اس میں پنہاں ہیں شکر کے جذبات
یہ تو جاناں خوشی کے آنسو ہیں
اس سے بڑھ کر کوئی بھی نشہ نہیں
ضبط غم میں آنسوؤں کو پی گیا
ہے مرے لب پہ تبسم رقصاں
یہ الگ بات ہے دل روتا ہے
آگ پنہاں تھی مرے اشکوں میں
آپ سمجھے تھے آب کے قطرے
غم تو غم ہے خوشی میں بھر آئے
مجھ کو اشکوں پہ اعتبار نہیں
میں عبادت سمجھ کے پیتا تھا
توبہ کرکے گناہ کربیٹھا
نفرتیں دل سے مٹاؤ تو کوئی بات بنے
پیار کی شمعیں جلاؤ تو کوئی بات بنے
نیکی بدی کی اب کوئی میزان ہی نہیں
ایماں کی بات یہ ہے کہ ایمان ہی نہیں
شمع اخلاص و یقیں دل میں جلا کر چلئے
ظلمت یاس میں امید جگا کر چلئے
رسم الفت جہاں میں عام کرو
پیار سے دشمن کو رام کرو
اس کو غرور حسن نے کیا کیا بنا دیا
پتھر بنا دیا کبھی شیشہ بنا دیا
منزلِ صدق و صفا کا راستہ اپنائیے
کاروانِ زندگی کے رہنما بن جائیے
پلکوں پہ انتظار کا موسم سجا لیا
اس سے بچھڑکے روگ گلے سے لگا لیا
پتھر ہی رہنے دیجئے شیشہ نہ کیجئے
احباب سے وفا کا تقاضا نہ کیجئے
یہ شنکھ یہ اذان سلامت رہے تو اچھا ہے
وطن کی شان سلامت رہے تو اچھا ہے
جو ضروری ہے کار کر پہلے
شکرِ پروردگار کر پہلے
جو بھی دیتا ہے وہ بندے کو خدا دیتا ہے
پیڑ کا سایہ بھلا پیڑ کو کیا دیتا ہے