اشوک ساہنی کے نئے اشعار

اٹھ اٹھ کے دیکھتا ہوں شب ہجر میں اشوک

یہ انتظار اس کا قیامت سے کم نہیں

بت پرستی کسے کہتے ہیں بتا مجھ کو اشوک

سجدہ آخر ہے مزارات پہ جائز کیسے

کیا ضروری ہے کہ الفاظ میں اظہار کروں

مجھ کو آنکھوں سے بھی آتا ہے شکایت کرنا

مرے شکووں سے نالوں سے مرا صیاد ڈرتا ہے

زباں بندی کی خاطر وہ زباں بھی کاٹ دیتا ہے

عشق کا اظہار آساں ہے اشوک

عشق کا پیشہ بہت دشوار ہے

ہم کو ہر غم دیا ہے اپنوں نے

ہم کو اپنوں سے کچھ امید نہیں

مرنے کے بعد کس سے توقع رکھیں اشوک

جب زندگی نے عمر بھر مجھ سے وفا نہ کی

منافق دوستوں کے درمیاں جینا قیامت ہے

خدا کا شکر ہے لیکن مرا ایماں سلامت ہے

اتنا کہاں تھا ہوش کہ مسجد سدھارتے

واعظ نے میکدہ میں مصلی بچھا لیا

ہائے اس کی وہ مدھ بھری آنکھیں

ڈوب جانے کو دل مچلتا ہے