اٹھ اٹھ کے دیکھتا ہوں شب ہجر میں اشوک
یہ انتظار اس کا قیامت سے کم نہیں
بت پرستی کسے کہتے ہیں بتا مجھ کو اشوک
سجدہ آخر ہے مزارات پہ جائز کیسے
کیا ضروری ہے کہ الفاظ میں اظہار کروں
مجھ کو آنکھوں سے بھی آتا ہے شکایت کرنا
مرے شکووں سے نالوں سے مرا صیاد ڈرتا ہے
زباں بندی کی خاطر وہ زباں بھی کاٹ دیتا ہے
عشق کا اظہار آساں ہے اشوک
عشق کا پیشہ بہت دشوار ہے
ہم کو ہر غم دیا ہے اپنوں نے
ہم کو اپنوں سے کچھ امید نہیں
مرنے کے بعد کس سے توقع رکھیں اشوک
جب زندگی نے عمر بھر مجھ سے وفا نہ کی
منافق دوستوں کے درمیاں جینا قیامت ہے
خدا کا شکر ہے لیکن مرا ایماں سلامت ہے
اتنا کہاں تھا ہوش کہ مسجد سدھارتے
واعظ نے میکدہ میں مصلی بچھا لیا
ہائے اس کی وہ مدھ بھری آنکھیں
ڈوب جانے کو دل مچلتا ہے
نفرتیں دل سے مٹاؤ تو کوئی بات بنے
پیار کی شمعیں جلاؤ تو کوئی بات بنے
نیکی بدی کی اب کوئی میزان ہی نہیں
ایماں کی بات یہ ہے کہ ایمان ہی نہیں
شمع اخلاص و یقیں دل میں جلا کر چلئے
ظلمت یاس میں امید جگا کر چلئے
رسم الفت جہاں میں عام کرو
پیار سے دشمن کو رام کرو
اس کو غرور حسن نے کیا کیا بنا دیا
پتھر بنا دیا کبھی شیشہ بنا دیا
منزلِ صدق و صفا کا راستہ اپنائیے
کاروانِ زندگی کے رہنما بن جائیے
پلکوں پہ انتظار کا موسم سجا لیا
اس سے بچھڑکے روگ گلے سے لگا لیا
پتھر ہی رہنے دیجئے شیشہ نہ کیجئے
احباب سے وفا کا تقاضا نہ کیجئے
یہ شنکھ یہ اذان سلامت رہے تو اچھا ہے
وطن کی شان سلامت رہے تو اچھا ہے
جو ضروری ہے کار کر پہلے
شکرِ پروردگار کر پہلے
جو بھی دیتا ہے وہ بندے کو خدا دیتا ہے
پیڑ کا سایہ بھلا پیڑ کو کیا دیتا ہے