یا خدا میری دعاؤں میں اثر پیدا کر
بڑھ گیا حد سے اندھیرا تو سحر پیدا کر
زندگی ہے کہ ہجر کا عالم
عمر بھر جانکنی میں گزری ہے
راس آئیں نہ وصل کی گھڑیاں
ان کے آتے ہی ہم کو موت آئی
کٹ تو جائے گی یہ شب ہجراں
وہ نہ آئے تو زیست بھی شب ہے
بے خودی میں کہہ دیا اس کو خدا
اس کا کفارہ بہت مہنگا پڑا
اف ترے حسن کا انداز نزاکت توبہ
اک قیامت ہے ، قیامت ہے ، قیامت توبہ
اس کی رفتار کا انداز ! الٰہی توبہ
اک قیامت سی مرے دل پہ گزر جاتی ہے
وہ جو آئے گلستاں میں ناز سے
شاخ گل بھی شرم سے دہری ہوئی
دوستوں کا ہائے انداز خلوص
دشمنی بھی دل پکڑ کر رہ گئی
اس کے آنے کا انتظار ہے مجھ کو
اب تو جینا بھی بار ہے مجھ کو
نفرتیں دل سے مٹاؤ تو کوئی بات بنے
پیار کی شمعیں جلاؤ تو کوئی بات بنے
نیکی بدی کی اب کوئی میزان ہی نہیں
ایماں کی بات یہ ہے کہ ایمان ہی نہیں
شمع اخلاص و یقیں دل میں جلا کر چلئے
ظلمت یاس میں امید جگا کر چلئے
رسم الفت جہاں میں عام کرو
پیار سے دشمن کو رام کرو
اس کو غرور حسن نے کیا کیا بنا دیا
پتھر بنا دیا کبھی شیشہ بنا دیا
منزلِ صدق و صفا کا راستہ اپنائیے
کاروانِ زندگی کے رہنما بن جائیے
پلکوں پہ انتظار کا موسم سجا لیا
اس سے بچھڑکے روگ گلے سے لگا لیا
پتھر ہی رہنے دیجئے شیشہ نہ کیجئے
احباب سے وفا کا تقاضا نہ کیجئے
یہ شنکھ یہ اذان سلامت رہے تو اچھا ہے
وطن کی شان سلامت رہے تو اچھا ہے
جو ضروری ہے کار کر پہلے
شکرِ پروردگار کر پہلے
جو بھی دیتا ہے وہ بندے کو خدا دیتا ہے
پیڑ کا سایہ بھلا پیڑ کو کیا دیتا ہے