کتنے طوفان کئے عزم نے میرے غرقاب
ہم سے طوفاں نہیں ، طوفان سے ہم ٹکرائے
عمر بھر شمع کی مانند جلایا دل کو
پھر بھی دنیا کو شکایت ہے اجالا کم ہے
مے پرستوں کی ساقی گری کے لئے
شیخ صاحب جہنم میں ڈالے گئے
مجھے تیری تمنا ہر گھڑی بےچین رکھتی ہے
لحد میں بھی مجھے لگتا ہے تیری یاد آئے گی
اس نیل گوں فلک سے مایوس ہوگئے ہم
مٹی کے آسماں سے چل قبر ہی سجا لیں
نہ ہو ڈر تو گناہوں کا مزہ کیا
کہ پھل چوری کا لگتا ہے بہت میٹھا
مرتے مرتے ہے یہی اک تمنا دل میں
اک نظر دیکھ تو لوں اسے چلتے چلتے
تیری آنکھیں مجھ پہ جادو کرگئیں
مجھ کو اب دنیا حسیں لگنے لگی
آرزوئیں سب ادھوری رہ گئیں
موت نے ہم کو مکمل کردیا
ہر خوشی تیرے بنا خار کی مانند چبھے
تو جو مل جائے تو صحرا کو بھی گلشن کردوں
نفرتیں دل سے مٹاؤ تو کوئی بات بنے
پیار کی شمعیں جلاؤ تو کوئی بات بنے
نیکی بدی کی اب کوئی میزان ہی نہیں
ایماں کی بات یہ ہے کہ ایمان ہی نہیں
شمع اخلاص و یقیں دل میں جلا کر چلئے
ظلمت یاس میں امید جگا کر چلئے
رسم الفت جہاں میں عام کرو
پیار سے دشمن کو رام کرو
اس کو غرور حسن نے کیا کیا بنا دیا
پتھر بنا دیا کبھی شیشہ بنا دیا
منزلِ صدق و صفا کا راستہ اپنائیے
کاروانِ زندگی کے رہنما بن جائیے
پلکوں پہ انتظار کا موسم سجا لیا
اس سے بچھڑکے روگ گلے سے لگا لیا
پتھر ہی رہنے دیجئے شیشہ نہ کیجئے
احباب سے وفا کا تقاضا نہ کیجئے
یہ شنکھ یہ اذان سلامت رہے تو اچھا ہے
وطن کی شان سلامت رہے تو اچھا ہے
جو ضروری ہے کار کر پہلے
شکرِ پروردگار کر پہلے
جو بھی دیتا ہے وہ بندے کو خدا دیتا ہے
پیڑ کا سایہ بھلا پیڑ کو کیا دیتا ہے