اشوک ساہنی کے نئے اشعار

کتنے طوفان کئے عزم نے میرے غرقاب

ہم سے طوفاں نہیں ، طوفان سے ہم ٹکرائے

عمر بھر شمع کی مانند جلایا دل کو

پھر بھی دنیا کو شکایت ہے اجالا کم ہے

مے پرستوں کی ساقی گری کے لئے

شیخ صاحب جہنم میں ڈالے گئے

مجھے تیری تمنا ہر گھڑی بےچین رکھتی ہے

لحد میں بھی مجھے لگتا ہے تیری یاد آئے گی

اس نیل گوں فلک سے مایوس ہوگئے ہم

مٹی کے آسماں سے چل قبر ہی سجا لیں

نہ ہو ڈر تو گناہوں کا مزہ کیا

کہ پھل چوری کا لگتا ہے بہت میٹھا

مرتے مرتے ہے یہی اک تمنا دل میں

اک نظر دیکھ تو لوں اسے چلتے چلتے

تیری آنکھیں مجھ پہ جادو کرگئیں

مجھ کو اب دنیا حسیں لگنے لگی

آرزوئیں سب ادھوری رہ گئیں

موت نے ہم کو مکمل کردیا

ہر خوشی تیرے بنا خار کی مانند چبھے

تو جو مل جائے تو صحرا کو بھی گلشن کردوں