تیرے لئے جو خاک ہے میرے لئے وہ زر
دنیا میں کام کرتی ہے اپنی بھی کچھ نظر
یاروں دل کیا اجڑ گیا میرا
ایک بستی اجڑ گئی میری
یہ قیامت سے بڑی چیز ہے پہچان گیا
ایک انگڑائی میں بس شیخ کا ایمان گیا
مانگیں بنا ملی ہیں زمانے کی نعمتیں
اب سوچتا ہوں مانگوں میں اپنے خٖدا سے کیا
بھروسہ ناخدائوں کا مری کشتی کو لے ڈوبا
اگر طوفاں سے لڑجاتے تو بیڑا پار ہوجاتا
رسوا ہوجائے زمانے میں نہ الفت میری
اشک بن کر نہ ٹپک جائے محبت میری
شکستہ ہی سہی کشتی مگر طوفاں سے ٹکر لے
جو ہمت ہار جاتے ہیں انہیں ساحل نہیں ملتا
سمسّیا اور دکھ میں فرق اتنا ہے سمجھ لیجے
سمسّیا جائے گی یکتی سے ، دکھ صبر و تحمل سے
حضرت حیات جہد مسلسل کا نام ہے
آئے عمل کا وقت تو سجدہ حرام ہے
وہ خوشیاں ہوں کہ غم تجھ کو سدا ہم یاد رکھتے ہیں
عمارت دل کی یادوں سے تری آباد رکھتے ہیں
نفرتیں دل سے مٹاؤ تو کوئی بات بنے
پیار کی شمعیں جلاؤ تو کوئی بات بنے
نیکی بدی کی اب کوئی میزان ہی نہیں
ایماں کی بات یہ ہے کہ ایمان ہی نہیں
شمع اخلاص و یقیں دل میں جلا کر چلئے
ظلمت یاس میں امید جگا کر چلئے
رسم الفت جہاں میں عام کرو
پیار سے دشمن کو رام کرو
اس کو غرور حسن نے کیا کیا بنا دیا
پتھر بنا دیا کبھی شیشہ بنا دیا
منزلِ صدق و صفا کا راستہ اپنائیے
کاروانِ زندگی کے رہنما بن جائیے
پلکوں پہ انتظار کا موسم سجا لیا
اس سے بچھڑکے روگ گلے سے لگا لیا
پتھر ہی رہنے دیجئے شیشہ نہ کیجئے
احباب سے وفا کا تقاضا نہ کیجئے
یہ شنکھ یہ اذان سلامت رہے تو اچھا ہے
وطن کی شان سلامت رہے تو اچھا ہے
جو ضروری ہے کار کر پہلے
شکرِ پروردگار کر پہلے
جو بھی دیتا ہے وہ بندے کو خدا دیتا ہے
پیڑ کا سایہ بھلا پیڑ کو کیا دیتا ہے