اشوک ساہنی کے نئے اشعار

تمام عمر نہ آیا وہ بے وفا لیکن

تمام عمر مجھے اس کا انتظار رہا

اچھی ہدایتیں اگر اولاد کو ملیں

جھگڑے یہ دھرم و ایماں کے پیدا کبھی نہ ہوں

شیخ مے کو حرام کہتے رہے

میں نے پی کر حلال بھی کرلی

میکدے میں نظر آتے ہیں سبھی جام بدست

مجھ کو آنکھوں سے پلاؤ تو کوئی بات بنے

مجھ کو اتنی پلادے اے ساقی

توبہ کرنی محال ہوجائے

شیخ صاحب ادھر تو مسجد ہے

میکدے میں حیات بٹتی ہے

نفرت کی لو چلی تو چمن بھی جھلس گیا

بدلے کی بھاؤنا سے وطن بھی جھلس گیا

تصویر بھی کھنچ جاتی ہے بند کرتے ہی آنکھیں

مجھ سا بھی مصور کوئی دنیا میں ہوا کیا

تجھ سے آنکھیں جو ہوئیں چار تجھے کیا معلوم

چل گیا دل پہ مرے وار تجھے کیا معلوم

موت کا غم ، نہ اب حیات کا غم

میرے دل میں ہے کائنات کا غم