تمام عمر نہ آیا وہ بے وفا لیکن
تمام عمر مجھے اس کا انتظار رہا
اچھی ہدایتیں اگر اولاد کو ملیں
جھگڑے یہ دھرم و ایماں کے پیدا کبھی نہ ہوں
شیخ مے کو حرام کہتے رہے
میں نے پی کر حلال بھی کرلی
میکدے میں نظر آتے ہیں سبھی جام بدست
مجھ کو آنکھوں سے پلاؤ تو کوئی بات بنے
مجھ کو اتنی پلادے اے ساقی
توبہ کرنی محال ہوجائے
شیخ صاحب ادھر تو مسجد ہے
میکدے میں حیات بٹتی ہے
نفرت کی لو چلی تو چمن بھی جھلس گیا
بدلے کی بھاؤنا سے وطن بھی جھلس گیا
تصویر بھی کھنچ جاتی ہے بند کرتے ہی آنکھیں
مجھ سا بھی مصور کوئی دنیا میں ہوا کیا
تجھ سے آنکھیں جو ہوئیں چار تجھے کیا معلوم
چل گیا دل پہ مرے وار تجھے کیا معلوم
موت کا غم ، نہ اب حیات کا غم
میرے دل میں ہے کائنات کا غم
نفرتیں دل سے مٹاؤ تو کوئی بات بنے
پیار کی شمعیں جلاؤ تو کوئی بات بنے
نیکی بدی کی اب کوئی میزان ہی نہیں
ایماں کی بات یہ ہے کہ ایمان ہی نہیں
شمع اخلاص و یقیں دل میں جلا کر چلئے
ظلمت یاس میں امید جگا کر چلئے
رسم الفت جہاں میں عام کرو
پیار سے دشمن کو رام کرو
اس کو غرور حسن نے کیا کیا بنا دیا
پتھر بنا دیا کبھی شیشہ بنا دیا
منزلِ صدق و صفا کا راستہ اپنائیے
کاروانِ زندگی کے رہنما بن جائیے
پلکوں پہ انتظار کا موسم سجا لیا
اس سے بچھڑکے روگ گلے سے لگا لیا
پتھر ہی رہنے دیجئے شیشہ نہ کیجئے
احباب سے وفا کا تقاضا نہ کیجئے
یہ شنکھ یہ اذان سلامت رہے تو اچھا ہے
وطن کی شان سلامت رہے تو اچھا ہے
جو ضروری ہے کار کر پہلے
شکرِ پروردگار کر پہلے
جو بھی دیتا ہے وہ بندے کو خدا دیتا ہے
پیڑ کا سایہ بھلا پیڑ کو کیا دیتا ہے