شیخ نے آتے ہی بزم مے کو برہم کردیا
اچھی خاصی میری جنت کو جہنم کردیا
بیٹھ جاتی ہے وہیں ریت کی مانند اشوک
جب بھی دیوار کوئی عزم سے ٹکراتی ہے
حرم ہو دیر ہو یا میکدہ، اس سے غرض کیا ہے
جہاں دیکھا ترا جلوہ وہیں میں نے جبیں رکھ دی
اب مرے شہر کے ظالم ہیں اسی کوشش میں
ظلم سہتا رہوں فریا د نہ کرنے پاؤں
تجھ کو پانے کی تمنا دل ہی دل میں رہ گئی
سوچتا ہوں زندگی یہ وار کیسے سہہ گئی
سنتا نہیں ہے کوئی یہاں مفلسوں کی آج
ہر شخص میرے شہر میں مصروف زر لگے
اس کی آمد سے مرے گھر میں بہار آتی ہے
وہ جو چاہے تو مرے گھر کو بھی ویرانہ بنا دے
خوں ٹپکتا ہے لالہ و گل سے
اس سے بہتر خزاں کا موسم تھا
اتفاقاً سامنے وہ آئینے کے آگئے
بے خودی میں آئینے سے آئینہ ٹکرا گئے
نازکی تو مرے محبوب کی دیکھے کوئی
گل کو چھوتے ہی پڑے ہاتھ میں چھالے ان کے
نفرتیں دل سے مٹاؤ تو کوئی بات بنے
پیار کی شمعیں جلاؤ تو کوئی بات بنے
نیکی بدی کی اب کوئی میزان ہی نہیں
ایماں کی بات یہ ہے کہ ایمان ہی نہیں
شمع اخلاص و یقیں دل میں جلا کر چلئے
ظلمت یاس میں امید جگا کر چلئے
رسم الفت جہاں میں عام کرو
پیار سے دشمن کو رام کرو
اس کو غرور حسن نے کیا کیا بنا دیا
پتھر بنا دیا کبھی شیشہ بنا دیا
منزلِ صدق و صفا کا راستہ اپنائیے
کاروانِ زندگی کے رہنما بن جائیے
پلکوں پہ انتظار کا موسم سجا لیا
اس سے بچھڑکے روگ گلے سے لگا لیا
پتھر ہی رہنے دیجئے شیشہ نہ کیجئے
احباب سے وفا کا تقاضا نہ کیجئے
یہ شنکھ یہ اذان سلامت رہے تو اچھا ہے
وطن کی شان سلامت رہے تو اچھا ہے
جو ضروری ہے کار کر پہلے
شکرِ پروردگار کر پہلے
جو بھی دیتا ہے وہ بندے کو خدا دیتا ہے
پیڑ کا سایہ بھلا پیڑ کو کیا دیتا ہے