اشوک ساہنی کے نئے اشعار

شیخ نے آتے ہی بزم مے کو برہم کردیا

اچھی خاصی میری جنت کو جہنم کردیا

بیٹھ جاتی ہے وہیں ریت کی مانند اشوک

جب بھی دیوار کوئی عزم سے ٹکراتی ہے

حرم ہو دیر ہو یا میکدہ، اس سے غرض کیا ہے

جہاں دیکھا ترا جلوہ وہیں میں نے جبیں رکھ دی

اب مرے شہر کے ظالم ہیں اسی کوشش میں

ظلم سہتا رہوں فریا د نہ کرنے پاؤں

تجھ کو پانے کی تمنا دل ہی دل میں رہ گئی

سوچتا ہوں زندگی یہ وار کیسے سہہ گئی

سنتا نہیں ہے کوئی یہاں مفلسوں کی آج

ہر شخص میرے شہر میں مصروف زر لگے

اس کی آمد سے مرے گھر میں بہار آتی ہے

وہ جو چاہے تو مرے گھر کو بھی ویرانہ بنا دے

خوں ٹپکتا ہے لالہ و گل سے

اس سے بہتر خزاں کا موسم تھا

اتفاقاً سامنے وہ آئینے کے آگئے

بے خودی میں آئینے سے آئینہ ٹکرا گئے

نازکی تو مرے محبوب کی دیکھے کوئی

گل کو چھوتے ہی پڑے ہاتھ میں چھالے ان کے