کوئی دیکھے تو مری دیوانگی
رکھ دیا اس کے مقابل آئینہ
سنگ سے جب تک نہ ٹکرائے اشوک
آئینہ بھی آئینہ ہوتا نہیں
باغباں تو ہی بتا کس نے اسے پھونک دیا
آشیاں میں نے بنایا تھا بڑی محنت سے
رہتے تھے وہ جو دل میں بچھڑے نہ تھے کبھی
فرمارہے ہیں دفن میں تاخیر کیوں ہوئی
جو شجر اپنی بلندی پہ بہت نازاں ہے
آئے اس پیڑ پہ پھل بھی یہ ضروری تو نہیں
کب سیاہ بختی میں ہوتا ہے کسی کا کوئی
عالم نزع میں پھر جاتی ہیں آنکھیں جیسے
زندگی کا بس یہ رخ سچا لگا
مجھ کو تجھ سے تیرا غم اچھا لگا
بھروسہ ناخداؤں پر جو کرتے ہیں سمندر میں
بسا اوقات ان کے ہی سفینے ڈوب جاتے ہیں
تیرگی بڑھنے لگی اپنی حدوں سے آگے
مشعلیں دل میں جلاؤ تو کوئی بات بنے
چاہے ہر سو ہو مسلط شب ظلمت پھر بھی
ہم کو کرنی ہے اجالوں کی حفاظت پھر بھی
نفرتیں دل سے مٹاؤ تو کوئی بات بنے
پیار کی شمعیں جلاؤ تو کوئی بات بنے
نیکی بدی کی اب کوئی میزان ہی نہیں
ایماں کی بات یہ ہے کہ ایمان ہی نہیں
شمع اخلاص و یقیں دل میں جلا کر چلئے
ظلمت یاس میں امید جگا کر چلئے
رسم الفت جہاں میں عام کرو
پیار سے دشمن کو رام کرو
اس کو غرور حسن نے کیا کیا بنا دیا
پتھر بنا دیا کبھی شیشہ بنا دیا
منزلِ صدق و صفا کا راستہ اپنائیے
کاروانِ زندگی کے رہنما بن جائیے
پلکوں پہ انتظار کا موسم سجا لیا
اس سے بچھڑکے روگ گلے سے لگا لیا
پتھر ہی رہنے دیجئے شیشہ نہ کیجئے
احباب سے وفا کا تقاضا نہ کیجئے
یہ شنکھ یہ اذان سلامت رہے تو اچھا ہے
وطن کی شان سلامت رہے تو اچھا ہے
جو ضروری ہے کار کر پہلے
شکرِ پروردگار کر پہلے
جو بھی دیتا ہے وہ بندے کو خدا دیتا ہے
پیڑ کا سایہ بھلا پیڑ کو کیا دیتا ہے