اشوک ساہنی کے نئے اشعار

کوئی دیکھے تو مری دیوانگی

رکھ دیا اس کے مقابل آئینہ

سنگ سے جب تک نہ ٹکرائے اشوک

آئینہ بھی آئینہ ہوتا نہیں

باغباں تو ہی بتا کس نے اسے پھونک دیا

آشیاں میں نے بنایا تھا بڑی محنت سے

رہتے تھے وہ جو دل میں بچھڑے نہ تھے کبھی

فرمارہے ہیں دفن میں تاخیر کیوں ہوئی

جو شجر اپنی بلندی پہ بہت نازاں ہے

آئے اس پیڑ پہ پھل بھی یہ ضروری تو نہیں

کب سیاہ بختی میں ہوتا ہے کسی کا کوئی

عالم نزع میں پھر جاتی ہیں آنکھیں جیسے

زندگی کا بس یہ رخ سچا لگا

مجھ کو تجھ سے تیرا غم اچھا لگا

بھروسہ ناخداؤں پر جو کرتے ہیں سمندر میں

بسا اوقات ان کے ہی سفینے ڈوب جاتے ہیں

تیرگی بڑھنے لگی اپنی حدوں سے آگے

مشعلیں دل میں جلاؤ تو کوئی بات بنے

چاہے ہر سو ہو مسلط شب ظلمت پھر بھی

ہم کو کرنی ہے اجالوں کی حفاظت پھر بھی