تم نے سورج کبھی پچھم سے نکلتے دیکھا
اس کو وعدہ نہیں کہتے جو وفا ہوجائے
رخ روشن میں ترا دیکھ کے جی اٹھتا ہوں
مجھ کو آتا نہیں پروانے کی صورت جلنا
تر بہ تر ہے شیخ کا دامن لبالب ہے برہمن کا کمنڈل بھی
اس پہ بھی کرتے ہیں رندوں سے وہ دعوی پارسائی کا
غم کا ہر دم بیاں نہیں اچھا
اپنی خوشیاں شمار کر پہلے
اس کی جفائیں مجھ کو وفاؤں سے کم نہیں
اس کو خوشی میں خوش ہوں مجھے کوئی غم نہیں
بجلیاں کوند رہی ہیں کہ تکلم تیرا
برق نے قید میں رکھا ہے تبسم تیرا
جھوٹا وعدہ ہی سہی دل کی تسلی کے لئے
آسرا طور کا ہے اس کی تجلی کے لئے
اپنے شانوں پہ سر سلامت رکھ
اب سہاروں کا انتظار نہ کر
آنکھیں کھلی تو خواب کے منظر بکھر گئے
دیوار و در پہ دھوپ کا پہرا ملا مجھے
موت بھی کیا ڈرائے گی ہم کو
موت میں بھی حیات پنہاں ہے
نفرتیں دل سے مٹاؤ تو کوئی بات بنے
پیار کی شمعیں جلاؤ تو کوئی بات بنے
نیکی بدی کی اب کوئی میزان ہی نہیں
ایماں کی بات یہ ہے کہ ایمان ہی نہیں
شمع اخلاص و یقیں دل میں جلا کر چلئے
ظلمت یاس میں امید جگا کر چلئے
رسم الفت جہاں میں عام کرو
پیار سے دشمن کو رام کرو
اس کو غرور حسن نے کیا کیا بنا دیا
پتھر بنا دیا کبھی شیشہ بنا دیا
منزلِ صدق و صفا کا راستہ اپنائیے
کاروانِ زندگی کے رہنما بن جائیے
پلکوں پہ انتظار کا موسم سجا لیا
اس سے بچھڑکے روگ گلے سے لگا لیا
پتھر ہی رہنے دیجئے شیشہ نہ کیجئے
احباب سے وفا کا تقاضا نہ کیجئے
یہ شنکھ یہ اذان سلامت رہے تو اچھا ہے
وطن کی شان سلامت رہے تو اچھا ہے
جو ضروری ہے کار کر پہلے
شکرِ پروردگار کر پہلے
جو بھی دیتا ہے وہ بندے کو خدا دیتا ہے
پیڑ کا سایہ بھلا پیڑ کو کیا دیتا ہے