اشوک ساہنی کے نئے اشعار

تم نے سورج کبھی پچھم سے نکلتے دیکھا

اس کو وعدہ نہیں کہتے جو وفا ہوجائے

رخ روشن میں ترا دیکھ کے جی اٹھتا ہوں

مجھ کو آتا نہیں پروانے کی صورت جلنا

تر بہ تر ہے شیخ کا دامن لبالب ہے برہمن کا کمنڈل بھی

اس پہ بھی کرتے ہیں رندوں سے وہ دعوی پارسائی کا

غم کا ہر دم بیاں نہیں اچھا

اپنی خوشیاں شمار کر پہلے

اس کی جفائیں مجھ کو وفاؤں سے کم نہیں

اس کو خوشی میں خوش ہوں مجھے کوئی غم نہیں

بجلیاں کوند رہی ہیں کہ تکلم تیرا

برق نے قید میں رکھا ہے تبسم تیرا

جھوٹا وعدہ ہی سہی دل کی تسلی کے لئے

آسرا طور کا ہے اس کی تجلی کے لئے

اپنے شانوں پہ سر سلامت رکھ

اب سہاروں کا انتظار نہ کر

آنکھیں کھلی تو خواب کے منظر بکھر گئے

دیوار و در پہ دھوپ کا پہرا ملا مجھے

موت بھی کیا ڈرائے گی ہم کو

موت میں بھی حیات پنہاں ہے