برکت ہمارے رزق میں آئے گی کس طرح
گھر میں ہمارے جب کوئی مہمان ہی نہیں
زندگی ہے اگر مختصر مختصر
رکھئے زاد سفر مختصر مختصر
رسم الفت جہاں میں عام کرو
پیار سے دشمنوں کو رام کرو
ہر زخم دل کو ہم نے سجایا ہے اس طرح
جگنو بنا دیا کبھی تارا بنا دیا
ہم نے مانا ہر طرف تیرہ شبی کا راز ہے
آپ سورج ہیں اگر تو روشنی پھیلائیے
آدمی خوددار ہو تو وقت بھی
سر نگوں رہتا ہے اس کے سامنے
اپنے ہمسائے سے بھی واقف نہیں
کیا مہذب فاصلے ہیں شہر میں
چھوڑدو یہ اداسی اشوک
مسکرانے کی باتیں کرو
کتنے سکوں سے کاٹ دی پرکھوں نے زندگی
جو مل گیا نصیب سے چپ چاپ کھا لیا
تصور رات بھر تنہائیوں میں
تری یادوں کا البم لے کے آیا
نفرتیں دل سے مٹاؤ تو کوئی بات بنے
پیار کی شمعیں جلاؤ تو کوئی بات بنے
نیکی بدی کی اب کوئی میزان ہی نہیں
ایماں کی بات یہ ہے کہ ایمان ہی نہیں
شمع اخلاص و یقیں دل میں جلا کر چلئے
ظلمت یاس میں امید جگا کر چلئے
رسم الفت جہاں میں عام کرو
پیار سے دشمن کو رام کرو
اس کو غرور حسن نے کیا کیا بنا دیا
پتھر بنا دیا کبھی شیشہ بنا دیا
منزلِ صدق و صفا کا راستہ اپنائیے
کاروانِ زندگی کے رہنما بن جائیے
پلکوں پہ انتظار کا موسم سجا لیا
اس سے بچھڑکے روگ گلے سے لگا لیا
پتھر ہی رہنے دیجئے شیشہ نہ کیجئے
احباب سے وفا کا تقاضا نہ کیجئے
یہ شنکھ یہ اذان سلامت رہے تو اچھا ہے
وطن کی شان سلامت رہے تو اچھا ہے
جو ضروری ہے کار کر پہلے
شکرِ پروردگار کر پہلے
جو بھی دیتا ہے وہ بندے کو خدا دیتا ہے
پیڑ کا سایہ بھلا پیڑ کو کیا دیتا ہے