جو بھی دیتا ہے وہ بندے کو خدا دیتا ہے
پیڑ کا سایہ بھلا پیڑ کو کیا دیتا ہے
گھر کی ہر چیز کو خوشبو میں بسادیتا ہے
جب وہ آتا ہے گلابوں کو کھلادیتا ہے
ہم تو آزاد پرندوں کی طرح تھے لوگو
وقت شاید ہمیں مجبور بنادیتا ہے
رہبروں سے تو چمکتا ہوا جگنو اچھا
جو اندھیرے میں اجالوں کا پتہ دیتا ہے
دھڑکنیں ساز اٹھالیتی ہیں تنہائی میں
کوئی آواز میں آواز ملا دیتا ہے
پڑنے لگتی ہے شکن دھوپ کی پیشانی پر
جب بھی رستے میں کوئی پیڑ لگا دیتا ہے
ایک ہی نام فقط حمد کے لائق ہےاشوک
جو ہر اک زہر کو تریاق بنادیتا ہے
نفرتیں دل سے مٹاؤ تو کوئی بات بنے
پیار کی شمعیں جلاؤ تو کوئی بات بنے
نیکی بدی کی اب کوئی میزان ہی نہیں
ایماں کی بات یہ ہے کہ ایمان ہی نہیں
شمع اخلاص و یقیں دل میں جلا کر چلئے
ظلمت یاس میں امید جگا کر چلئے
رسم الفت جہاں میں عام کرو
پیار سے دشمن کو رام کرو
اس کو غرور حسن نے کیا کیا بنا دیا
پتھر بنا دیا کبھی شیشہ بنا دیا
منزلِ صدق و صفا کا راستہ اپنائیے
کاروانِ زندگی کے رہنما بن جائیے
پلکوں پہ انتظار کا موسم سجا لیا
اس سے بچھڑکے روگ گلے سے لگا لیا
پتھر ہی رہنے دیجئے شیشہ نہ کیجئے
احباب سے وفا کا تقاضا نہ کیجئے
یہ شنکھ یہ اذان سلامت رہے تو اچھا ہے
وطن کی شان سلامت رہے تو اچھا ہے
جو ضروری ہے کار کر پہلے
شکرِ پروردگار کر پہلے
برکت ہمارے رزق میں آئے گی کس طرح
گھر میں ہمارے جب کوئی مہمان ہی نہیں