سائل سے خفا یوں مرے پیارے نہیں ہوتے
کیا مانگنے والوں کے گذارے نہیں ہوتے
مسافر تھے رستے بدلتے رہے
مقدر میں چلنا تھا چلتے رہے
کیوں ہمیں موت کے پیغام دئے جاتے ہیں
یہ سزا کم تو نہیں ہے کہ جئے جاتے ہیں
نفرتیں دل سے مٹاؤ تو کوئی بات بنے
پیار کی شمعیں جلاؤ تو کوئی بات بنے
نیکی بدی کی اب کوئی میزان ہی نہیں
ایماں کی بات یہ ہے کہ ایمان ہی نہیں
شمع اخلاص و یقیں دل میں جلا کر چلئے
ظلمت یاس میں امید جگا کر چلئے
رسم الفت جہاں میں عام کرو
پیار سے دشمن کو رام کرو
اس کو غرور حسن نے کیا کیا بنا دیا
پتھر بنا دیا کبھی شیشہ بنا دیا
منزلِ صدق و صفا کا راستہ اپنائیے
کاروانِ زندگی کے رہنما بن جائیے
پلکوں پہ انتظار کا موسم سجا لیا
اس سے بچھڑکے روگ گلے سے لگا لیا
پتھر ہی رہنے دیجئے شیشہ نہ کیجئے
احباب سے وفا کا تقاضا نہ کیجئے
یہ شنکھ یہ اذان سلامت رہے تو اچھا ہے
وطن کی شان سلامت رہے تو اچھا ہے
جو ضروری ہے کار کر پہلے
شکرِ پروردگار کر پہلے
جو بھی دیتا ہے وہ بندے کو خدا دیتا ہے
پیڑ کا سایہ بھلا پیڑ کو کیا دیتا ہے
برکت ہمارے رزق میں آئے گی کس طرح
گھر میں ہمارے جب کوئی مہمان ہی نہیں
مانا کہ عزم ترک تمنا کریں گے ہم
تیرے بغیر جی کے بھلا کیا کریں گے ہم
عاشق کی آہ و زاری پہ، نالوں پہ ٹیکس ہو
سب مہوشوں پہ ، ماہ جمالوں پہ ٹیکس ہو
چلے بھی آؤ کہ ہم تم سے پیار کرتے ہیں
یہ وہ گناہ ہے جسے ہم بار بار کرتے ہیں
جام چلنے لگے دل مچلنے لگے
انجم جھوم اٹھی بزم لہرا گئی
جام چلنے لگے دل مچلنے لگے
انجم جھوم اٹھی بزم لہرا گئی
آج اک اجنبی سے نگاہیں ملیں
صرف اک لمحۂ مختصر کے لئے
ہر دم یہی ایک فکر ہو
اولاد ہی کا ذکر ہو
رخ سے پردہ اٹھا دے ذرا ساقیا
بس ابھی رنگ محفل بدل جائےگا