کہہ رہا ہے موجِ دریا سے سمندر کا سکوت
جس میں جتنا ظرف ہے اتنا ہی وہ خاموش ہے
عشق دل میں رہے تو رسوا ہو
لب پہ آئے تو راز ہو جائے
وقت تو دو ہی کٹھن گزرے ہیں میری عمر میں
اک ترے آنے سے پہلے اک ترے جانے کے بعد
کس درجہ دل شکن تھے محبت کے حادثے
ہم زندگی میں پھر کوئی ارماں نہ کر سکے
ہنسی آئی تو ہے بےکیف سی لیکن خدا جانے
مجھے مسرور پاکر میرے غمخواروں پہ کیا گزری
خشک باتوں میں کہاں اے شیخ! کیفِ زندگی
وہ تو پی کر ہی ملے گا ، جو مزہ پینے میں ہے
جی کانپتا ہے خلد میں رکھتے ہوئے قدم
ڈر ہے کہ اس زمیں پہ بھی آسماں نہ ہو
منحصر ہو جس کی مرنے پر امید
ناامیدی اس کی دیکھا چاہئے
جو ستم غیر کے قابل تھا ، وہ مجھ پر ہوتا
کاش تو میرے اکیلے کا ستم گر ہوتا
کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے
مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق
ذکر اس پری وش کا ، اور پھر بیاں اپنا
بن گیا رقیب آخر ، تھا جو رازداں اپنا
یہ تیرگی تو بہرحال چھٹ ہی جائے گی
نہ راس آئی ہمیں یہ روشنی تو کیا ہوگا
یہ بزمِ مے ہے یاں ، کوتاہ دستی میں ہے محرومی
جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں ، مینا اسی کا ہے
زبانِ ہوش سے یہ کفر سرزد ہو نہیں سکتا
میں کیسے بن پیے لے لوں ، خدا کا نام ہے ساقی
اب غرق ہوں میں آٹھ پہر ، مے کی یاد میں
توبہ نے مجھ کو اور گنہ گار کر دیا
عاشقی سے ملے گا اے زاہد!
بندگی سے خدا نہیں ملتا
وہ انسانی مسائل ، جو ابھی ناقابلِ حل ہیں
اگر رندوں کو فرصت ہو تو مےخانہ میں رکھ دینا
اتنا مایوس نہ ہو اے مرے زخمی احساس
لوگ کہتے ہیں ابھی کارِ رفو باقی ہے
کون فطرت کے تقاضوں کو بدل سکتا ہے
شمع ہر حال میں چاہے گی فروزاں ہونا
کیسے کیسوں کا ظرف کھلتا ہے
مفلسی تیری مہربانی سے
کہنے کو بھائی بھائی ہیں اہلِ وطن تمام
پھرتے ہیں آستینوں میں خنجر لئے ہوئے
روک لے اے آنکھ! جو آنسو کہ چشمِ تر میں ہیں
کچھ نہیں بگڑا ہے اب تک ، گھر کی دولت گھر میں ہے
پتہ یوں تو بتاتے ہیں وہ سب کو لامکاں اپنا
مگر معلوم ہے رہتے ہیں وہ ٹوٹے ہوئے دل میں