تجھے دانستہ محفل میں جو دیکھا ہو تو مجرم ہوں
نظر آخر نظر ہے ، بےارادہ اٹھ گئی ہوگی
امید تو بندھ جاتی ، تسکین تو ہو جاتی
وعدہ نہ وفا کرتے ، وعدہ تو کیا ہوتا
کہہ دو ان حسرتوں سے ، کہیں اور جا بسیں
اتنی جگہ کہاں ہے دلِ داغدار میں
یہ آگ اور نہیں دل کی آگ ہے ناداں
چراغ ہو کہ نہ ہو ، جل بجھیں گے پروانے
نشیمن میں ہی کون سے سکھ ملے ہیں
جو روؤں نشیمن کو رہ کر قفس میں
ناکامیوں پہ اپنی ہنسی آ گئی تھی آج
سو کتنے شرمسار ہوئے بےکسی سے ہم
جو تمنا بر نہ آئے عمر بھر
عمر بھر اس کی تمنا کیجئے
چار تنکے ہی سہی صیاد
میری دنیا تھی آشیانے میں
تاروں کا گو شمار میں آنا محال ہے
لیکن کسی کو نیند نہ آئے تو کیا کرے
آئینہ یہ تو بتاتا ہے ، میں کیا ہوں لیکن
آئینہ اس پہ ہے خاموش کہ کیا ہے مجھ میں
ہم کو جھکا سکے یہ زمانے میں دم نہیں
ہم سے زمانہ خود ہے ، زمانے سے ہم نہیں
دیوانگیٔ عشق کے بعد آ ہی گیا ہوش
اور ہوش بھی وہ ہوش کہ دیوانہ بنا دے
درد ہی درد کی دوا بن جائے
زخم ہی زخمِ دل کا مرہم ہو
مل ہی جاتا ہے کوئی دل کو دکھانے والا
ورنہ اس دور میں جینے کا سہارا کیا ہے
موت کا بھی علاج ہو شاید
زندگی کا کوئی علاج نہیں
تم گل سے گال قبر پہ رکھتے تو بات تھی
کیا فائدہ جو پھولوں کا انبار کر دیا
دیدنی ہے شکستگی دل کی
کیا عمارت ، غموں نے ڈھائی ہے
چمن کے رہنے والوں سے تو ، ہم صحرا نشیں اچھے
بہار آ کے چلی جاتی ہے ، ویرانی نہیں جاتی
باقی مرے حصہ میں بس دو ہی تو باتیں ہیں
جینے کی دعا دینا ، مرنے کی دعا کرنا
خزاں کی رات تڑپ کے کاٹنے والے
تجھے بہار میں نیند آ گئی تو کیا ہوگا
اجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو
نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے
دامن کسی کا ہاتھ سے جاتا رہا مگر
اک رشتۂ خیال ہے ، جو ٹوٹتا نہیں
کیا سناتے ہو کہ ہے ہجر میں جینا مشکل
تم سے بےرحم پہ مرنے سے ، تو آساں ہوگا
مجھے شکوہ نہیں کچھ ، بےوفائی کا تری ہرگز
گلہ تب ہو اگر تو نے ، کسی سے بھی نبھائی ہو
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
نہ جانے بات کیا ہے ، تمہیں جس دن سے دیکھا ہے
مری آنکھوں سے یہ دنیا حسیں معلوم ہوتی ہے
ہزار برق نے چل پھر کے مشق کی لیکن
ادا نہ آئی مگر ، تیرے مسکرانے کی
تیرے آنے کی کیا امید مگر
کیسے کہہ دوں کہ انتظار نہیں
کعبہ میں مسلماں کو بھی کہہ دیتے ہیں کافر
مےخانہ میں کافر کو بھی کافر نہیں کہتے
نہیں شکوہ مجھے کچھ ، بےوفائی کا تری ہرگز
گلہ تب ہو ، اگر تو نے ، کسی سے بھی نبھائی ہو