گر زندگی کے سیکھو کھلتی ہوئی کلی سے
لب پر ہے مسکراہٹ دل خون ہورہا ہے
یاں کس کو ہے میسر یہ کام کر گزرنا
اک بانکپن سے جینا اک بانکپن سے مرنا
زندگی کیا ہے عناصر میں ظہورِ ترتیب
موت کیا ہے انہیں اجزاء کا پریشاں ہونا
مٹھیوں میں خاک لے کر ، دوست آئے وقتِ دفن
زندگی بھر کی محبت کا ، صلہ دینے لگے
بس یہی دوڑ ہے ، اس دور کے انسانوں کی
تری دیوار سے ، اونچی مری دیوار بنے
غم سے بڑھ کر دوست ، کوئی دوسرا ہوتا نہیں
سب جدا ہو جائیں لیکن ، غم جدا ہوتا نہیں
نصیبوں سے ملتا ہے ، دردِ محبت
یہاں مرنے والے ہی ، اچھے رہے ہیں
لحد میں کیوں نہ ، جاؤں منہ چھپائے
بھری محفل سے ، اٹھوایا گیا ہوں
گر کچھ نہ بن پڑی ، تو ڈبو دیں گے سفینہ
ساحل کی قسم ، منتِ طوفاں نہ کریں گے
اندھیرا ہی اندھیرا ہے ، ہر ایک سو
امیدیں ساتھ ہیں ، لیکن کہاں تک
شبِ فرقت کے ، جاگنے والے
کیا کرے گا ، اگر سحر نہ ہوئی
تدبیر سے قسمت کی ، برائی نہیں جاتی
بگڑی ہوئی تقدیر ، بنائی نہیں جاتی
کہاں گم ہو گئے ہیں وہ خدا جانے
میں اپنے آنسؤوں کو ڈھونڈھتا ہوں
کانٹوں سے دل لگاؤ ، جو تاعمر ساتھ دیں
پھولوں کا کیا جو سانس کی ، گرمی نہ سہہ سکیں
مسجد میں اس نے ہم کو ، آنکھیں دکھا کے مارا
کافر کی شوخی دیکھو ، گھر میں خدا کے مارا
تیرا ملنا ، ترا نہیں ملنا
اور جنت ہے کیا ، جہنم کیا
دل ہے قدموں پر کسی کے ، سر جھکا ہو یا نہ ہو
بندگی تو اپنی فطرت ہے ، خدا ہو یا نہ ہو
دیوار کیا گری مرے ، خستہ مکان کی
لوگوں نے میرے صحن میں ، رستے بنا لئے
سجدہ ہو بےخلوص ، تو سجدہ بھی ہے گناہ
لغزش میں ہو خلوص تو ،لغزش نماز ہے
تجھی پر کچھ اے بت! ، نہیں منحصر
جسے ہم نے پوجا ، خدا کر دیا
دنیا تو اسی کی ہے ، دنیا کو جو ٹھکرا دے
جتنا اسے ٹھکرایا ، اتنی ہی قریب آئی
میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
کیا تری دریا دلی ہے اے خدا میرے لئے
ہر قیامت ہر مصیبت ہر بلا میرے لئے
سو جان سے ہو جاؤں گا ، راضی میں سزا پر
پہلے وہ مجھے اپنا ، گنہ گار تو کر لیں
کوئی افسانہ ، چھیڑ تنہائی
رات کٹتی نہیں ، جدائی کی
خیر گزری کہ نہ پہنچی ترے در تک ورنہ
آہ نے آگ لگا دی ہے جہاں ٹھہری ہے
کتنے شیریں ہیں ، تیرے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا
مجھ کو یہ آرزو ، وہ اٹھائیں نقاب خود
ان کو یہ انتظار ، تقاضا کرے کوئی
الٰہی! کیا علاقہ ہے وہ ، جب لیتے ہیں انگڑائی
مرے سینہ میں سب زخموں کے ٹانکے ٹوٹ جاتے ہیں
ان کے عہدِ شباب ، میں جینا
جینے والے تجھے ہوا کیا ہے