نقاب-حجاب-پردہ

مجھ کو یہ آرزو ، وہ اٹھائیں نقاب خود

ان کو یہ انتظار ، تقاضا کرے کوئی

نامعلوم

خوب پردہ ہے کہ ، چلمن سے لگے بیٹھے ہیں

صاف چھپتے بھی نہیں ، سامنے آتے بھی نہیں

داغ دہلوی

ابھی رات کچھ ہے باقی ، نہ اٹھا نقاب ساقی

ترا رند گرتے گرتے ، کہیں پھر سنبھل نہ جائے

انور

میری حیرت کی قسم ،آپ اٹھائیں تو نقاب

میرا ذمہ ہے کہ ، جلوے نہ پریشاں ہوں گے

جگر

کیوں دید کے طالب کو تم نے ، شہ دے کے تڑپتا چھوڑ دیا

کیا جان کے پردہ کھولا تھا ، کیا دیکھ کے پردہ چھوڑ دیا

مجید پیلی بھیتی

دھوکا اس سے کھا گیا میں ، اس لئے اے ساہنیؔ

اس نے رخ پہ ڈال رکھا تھا ، نقابِ دوستی

اشوک ساہنی