نکھر گئے ہیں پسینے میں ، بھیگ کے عارض
گلوں نے اور بھی ، شبنم سے تازگی پائی
غلام ربانی تاباں
اب میں سمجھا ، ترے رخسار پہ تل کا مطلب
دولتِ حسن پہ ، دربان بٹھا رکھا ہے
قمر
ان کے رخسار پہ ، ڈھلکے ہوئے آنسو توبہ
میں نے شبنم کو ، شعلوں پہ ، مچلتا دیکھا
ساحر لدھیانوی
کیا نزاکت ہے کہ عارض ان کے نیلے پڑ گئے
ہم نے بوسے لیا تھا خواب میں تصویر کا
نامعلوم
آتشِ رخسار و لب کیا پوچھتے ہو اے اشوک
اس کی حدت سے جہنم کو پسینہ آ گیا
اشوک ساہنی