لب-رخسار-عارض-بوسہ

کتنے شیریں ہیں ، تیرے لب کہ رقیب

گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا

مرزا غالب

کچھ تو مل جائے لبِ شیریں سے

زہر کھانے کی اجازت ہی سہی

آرزو لکھنوی

رکھ کے منہ سو گئے ہم ، آتشیں رخساروں پر

دل کو تھا چین تو نیند آ گئی انگاروں پر

آتش

جب بہاروں نے نہ پایا ، کوئی بھی اپنا مقام

تیرے ہونٹوں کے تبسم سے لپٹ کر سو گئی

نامعلوم

نازکی اس کے لب کی کیا کہئے

پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے

میر

ہے مرے لب پہ تبسم رقصاں

یہ الگ بات ہے کہ دل روتا ہے

اشوک ساہنی