گناہ-گنہ گار-بےگناہ

سو جان سے ہو جاؤں گا ، راضی میں سزا پر

پہلے وہ مجھے اپنا ، گنہ گار تو کر لیں

اکبر

اک فرصتِ گناہ ملی ، وہ بھی چار دن

دیکھے ہیں ہم نے حوصلے ، پروردگار کے

فیض

ناکردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد

یا رب اگر ان کردہ ، گناہوں کی سزا ہے

مرزا غالب

بات کیا چاہئے ، جب مفت میں حجت ٹھہری

اس گناہ پر مجھے مارا ، کہ گنہ گار نہ تھا

داغ دہلوی

دل میں کسی کے راہ کئے جا رہا ہوں میں

کتنا حسیں گناہ کئے جا رہا ہوں میں

جگر

گر ہو سکے تو بخش دو غیروں کی ہر خطا

لیکن نہ کرنا اپنی خطاؤں سے درگزر

اشوک ساہنی