جستجو سے ہمیں نجات ملی
تم ملے ساری کائنات ملی
یحیٰ بھائی
جینے کی ہے امید نہ مرنے کا یقیں ہے
اب دل کا یہ عالم ہے ، نہ دنیا ہے نہ دیں ہے
فانی بدایونی
دنیا کو بدلنے کی تمنا ہے اگر
دنیا کو نہیں خود کو ، بدلنا سیکھو
اصغر فتح پوری
ساری دنیا کے ہوئے میرے سوا
میں نے دنیا چھوڑ دی جن کے لئے
امیر مینائی
خدا جانے یہ دنیا ، جلوہ گاہِ ناز ہے کس کی
ہزاروں اٹھ گئے لیکن ، وہی رونق ہے مجلس کی
نامعلوم
بڑھتی ہی چلی جاتی ہے دنیا کی خرابی
اس پہ یہ قیامت ابھی رہنا ہے یہیں اور
سیماب اکبرآبادی
مہکنے لگے جس سے دنیا کا گلشن
خدا سے وہ امن و سکوں مانگتا ہوں
اشوک ساہنی