بہت مشکل ہے دنیا کا سنورنا
تری زلفوں کا پیچ و خم نہیں ہے
عدم
سفر کرتے ہوئے ، منزل بہ منزل جا رہے ہیں ہم
مجھے یہ ساری دنیا ، کارواں معلوم ہوتی ہے
تلوک چند محروم
زندہ ہوں تو پاؤں تلے روندے ہے مجھ کو
مر جاؤں تو کاندھے پہ اٹھاتی ہے یہ دنیا
اوشا شفق
دنیا کی نعمتوں سے محروم مجھ کو رکھا
اللہ! تیرے گھر میں کس چیز کی کمی تھی
مضطر
بات تو جب ہے کہ ، غیروں کا بھی کچھ پاس رہے
اپنے آرام کا ، دنیا میں کسے ہوش نہیں
ممتاز
تمہارا اور میرا ساتھ ، اے دنیا پرستو! کیا
تمہیں رہنا ہے دنیا میں ، مجھے جانا ہے دنیا سے
سیماب اکبرآبادی
اس طرح محسوس ہوتا ہے مجھے تیرے بغیر
اس بھری دنیا میں جیسے کوئی بھی اپنا نہیں
گوہر
موت کا غم نہ اب حیات کا غم
میرے دل میں ہے کائنات کا غم
اشوک ساہنی